امجد قریشیتازہ ترینکالم
آج کا کالم کچھ مخصوص لوگوں کیلئے

میں اپنے والد صاحب سے اکثر ایک کہانی سنا کرتا تھا جس میں ایک میراثی اور ایک چوہدری کا ذکر تھا اُس وقت تو میں اس کہانی کو مزاح کے طور پر لیتا تھا مگر جب پریکٹیکل لائف میں قدم رکھا تو ایسے بہت سے میراثیوں سے پالا پڑا جو کسی بھی جگہ پر اپنی اوقات دکھانے سے باز نہیں آتے۔ویسے میں ذات پات پر یقین نہیں رکھتا کیونکہ میرے پیارے آقاؐ نے اپنے آخری خطبہ حجتہ الوداع میں یہ بات بالکل واضح کردی کے کسی کو کسی پر فوقیت حاصل نہیں ماسوائے تقویٰ اور پرہیزگاری کے۔ ذات پات پہچان کی حد تک تو ٹھیک ہے کہ فلاں کس قبیلے اور قومیت سے تعلق رکھتا ہے مگر اس کو اپنے اوپر لاگو کرلینا کسی طرح مناسب نہیں کیونکہ جب نبی پاکؐ نے اپنے آخری خطبہ میں سب واضح کردیا تو میرے نزدیک ذاتوں کے چکر میں پڑنا کسی طور مناسب نہیں ۔قارئین کرام تھوری سے تمہید ذات کے حوالے سے یوں دینا پڑی کہ میں جو کہانی لکھنے جارہا ہوں تاکہ اُس کو پڑھ کر کوئی شخص گمراہی کا شکار نہ ہو اور ذاتیات کے حوالے سے میں ہدف تنقید نہ بن سکو۔کیونکہ بعض دفعہ کہانیوں میں بہت سے سبق اور کچھ انسانوں کی عادات شامل ہوتی ہیں جس سے اُن کی اوقات کا پتہ چلتا ہے کہ اگر ان سے کوئی کام لے لو یا انہیں کوئی کام کہ دو یا کسی بھی جگہ انہیں اپنے ساتھ شامل کر لوتو وہ اس چیز میں شامل تو ہوجائیں گے مگر اپنی گھٹیا حرکتوں اور اوچھے پن سے بعض نہیں آتے وہ مشہور قصہ کچھ اس طرح ہے کہ !ایک گاؤں کے میراثی کو قیمتی چادر لینے کا بہت شوق تھا ، اس نے بہت سالوں تک پیسے جمع کرکے ایک بہت خوبصورت اور قیمتی چادر تیار کروائی جو اپنی مثال آپ تھی ، گاؤں کے سب لوگوں نے اسکی چادر کی تعریف کی اور بہت پسند کیا ، کچھ دن بعد گاؤں کے چوہدری کے بیٹے کی شادی تھی ، چوہدری کے بیٹے نے ایک عجیب شرط عائد کردی کہ وہ بارات ایک ہی صورت میں لے کر جائے گا جب میراثی کی خوبصورت چادر اسکے گھوڑے پر ڈالی جائے گی ،مشکل یہ تھی کہ ایسی چادر پورے علاقے میں کسی کے پاس نہ تھی۔ میراثی کسی صورت بھی چادر دینے پر آمادہ نہیں تھا لیکن چوہدری نے کسی نہ کسی طرح اس سے چادر لے لی اور مجبورا” اسے بھی بارات میں شامل ہونے کا کہہ دیا میراثی بجھے دل کے ساتھ بارات میں شامل تھا بارات دوسرے گاؤں سے گزر رہی تھی کہ ایک آدمی نے میراثی سے پوچھ لیا کہ بارات کس کی ہے ، میراثی نے جواب دیا کہ بارات تو چوہدری کے بیٹے کی ہے لیکن چادر میری ہے ۔بارات میں شامل کچھ لوگوں نے بھی یہ بات سن لی اور چوہدری کو بتادی چوہدری نے اس بات میں اپنی بے عزتی محسوس کی اس نے میراثی کو بلا کر سمجھایا کہ کسی کو نہ بتائے کہ چادر اسکی ہے ورنہ لوگ کیا کہیں گے کہ چوہدری نے بیٹے کی شادی پر چادر مانگ کر لی ہے ، میراثی نے کہا ٹھیک ہے جی اب کسی کو نہیں بتاؤں گا کہ چادر میری ہے چلتے چلتے پھر کسی نے میراثی سے پوچھ لیا کہ بارات کس کی ہے میراثی نے جواب دیا کہ بارات تو چوہدری کے بیٹے کی ہے لیکن چادر کا پتہ نہیں ۔چوہدری تک پھر بات پہنچ گئی ، چوہدری کو بہت غصہ آیا اس نے میراثی کو بلا کر کہا کہ یار تم چادر کی بات کرتے ہی کیوں ہو۔ کیوں لوگوں کو شک میں مبتلا کرتے ہو ، اب اگر چادر کی بات کی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا ۔میراثی اندر ہی اندر غصے میں کھول رہا تھا اچانک ایک آدمی نے اس سے پوچھا کہ یار یہ بارات کس کی ہے ،میراثی نے جل کر جواب دیا جاؤ اپنا کام کرو نہ مجھے بارات کا پتہ ہے نہ چادر کا۔
قارئین کرام سو بعض دفعہ ہمارے آس پاس خواوہ وہ کام کرنے کی جگہ ہوں یا کوئی اور اہم امور کی انجام دہی تو ایسے کم ظرف لوگوں سے تو پالا پر ہی جاتا ہے جو کوئی عہدہ مل جائے تو اپنی اوقات بھول کر اُن لوگوں کے ساتھبھی دغا بازی کرنا شروع کردیتے ہیں کہ جن کی مرہون منت وہ اس مقام تک پہنچے ہیں اور اگر اُن سے کوئی کام لے لیا جائے تو وہ بے دلی سے وہ کام کرنے پر راضی تو ہوجاتے ہیں لیکن اُس کام کا بھی کام تمام کردیتے ہیں اسی میراثی کی طرح۔اللہ ہم سب کو صحیح راستے کی توفیق اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کی استطاعت عطا فرمائے ۔اور ایسے میراثی قسم کے لوگوں سے اپنی پناہ میں رکھے (آمین)
You must be logged in to post a comment.