تازہ ترینکالم

بدترین مہنگائی،گدھے اور گدھ

گدھا شاید دنیا کا وہ واحد جانور ہے جسے جتنا دل چاہے ہانک لیا جائے،کام لیا جائے بلکہ ساتھ ساتھ اس پر ڈنڈہ بھی برستا رہے وہ اپنے آقا کا کام بردار اور سر جھکا کر چلنے والا ہی رہے گا اسی طرح گدھ نے ہمیشہ نیم مردہ یا کسی مردے کو ہی نوچنا ہوتا ہے پاکستانی عوام کرہ ارض کی وہ عجیب اورواحد عوام ہے جو گدھوں کی مانند ہے، گذشتہ چند سال سے مہنگائی کے بہت بڑے عفریت اور اژدھے نے نگل لیا ہے اس کے باجود یہ غریب،محنت کش اور نیم مردہ،مہنگائی کی چکی میں پسی عوام گدھے کی طرح ہی تابعدار اور جی حضوری کے کام مشغول و مصروف ہے، گدھ نما با اختیار و پالیسی ساز اشرافیہ کو ان پر کبھی کچھ ترس نہیں آیاوہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک ان کا خون بھی چوس رہے ہیں،ان سے کام بھی لے رہے ہیں انہیں ہانک بھی رہے ہیں ان پر تشدد بھی کر رہے ہیں اور انہیں اپنے آگے نچا بھی رہے ہیں،ان کے آباؤ اجداد کسی خوشحالی،آسودگی،بہتری کی آس میں ہی مر کھپ گئے ان کی ہڈیاں تک گل چکی ہیں اسی آس کی امبر بیل میں لپٹی عوام زندگی کی بدترین،ذلت آمیز،شرمناک حالات میں دن رات گذار رہی ہے ان پر عفریت زدہ ماحول ہمیشہ کے لئے بنا دیا گیا ہے، اندرونی و بیرونی غلامی کا طوق ان کے گلوں میں ڈال کر ان پر ہانکا کاری جاری ہے، دو وقت کی روٹی کا حصول نا ممکن بن چکا ہے،کسی سفاک گدھ کی طرح انہیں نوچا جا رہا ہے یوں وہ کیا ان کی آنے والی نسلیں بھی ایسے خواب دیکھتے دیکھتے منوں مٹی تلے جا پڑیں گی، کچھ ترس نہیں،کچھ وفا نہیں،کچھ رحم نہیں،کچھ انسانیت نہیں،درندگی اور درماندگی،سفاکیت،غیر انسانی رویہ،گھٹیا طریقہ کار،دنیاکی بد ترین اور لعنت زدہ پالیسیاں ان کے لئے کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں،وہ جائیں تو کدھر جائیں،کس سے اپنا حق مانگیں،انصاف کی دہائی کدھر دیں،ہاتھ کس کس کے آگے پھیلائیں،بلبلائیں کس کس کے سامنے،اپنی بے بسی کا رونا روئیں کس کس کے آگے،اس حقیر کی توقیر ہی نہیں،طبقاتی نظام نے معاشرے کو دو حصوں میں منقسم کر رکھا ہے ایک طرف بہاروں کی برسات دوسروں کے مقدر میں حبس،تعفن،بدبو سنگدلی،ذلت و رسوائی بھوک ننگ،لاچارگی اور حقارت،ان کی خوشحالی کے ذمہ داران نے انہیں کسی دہکتی آگ اور بھسم کر دینے والی بھٹی میں ڈال کر اپنی ذمہ داریاں پوری کر رکھی ہیں،یہ لٹ جائیں،یہ بھوک سے مر جائیں،یہ گندگی کے ڈھیروں سے روٹی تلاش کرتے پھریں،انصاف کے حصول میں دربدر ہوجائیں،کچھ فرق نہیں،کچھ ترس نہیں ان کے رہبروں،مسیحاؤں کی خوشی ہی اسی میں ہے کہ وہ جیتے جی مرتے رہیں،سسکتے رہیں،بلبلاتے رہیں،کلپتے رہیں،تڑپتے رہیں، دن کو آرام نہ رات کو چین،ان کی ایک سانس آئے دوسری پرانہیں گمان رہے کہ نہ جانے کس نے کب ان کا گلہ دبوچ لینا ہے،روزانہ کی بنیاد پر مہنگائی کا مگر مچھ توانا سے توانا تر ہوتا چلا جا رہا ہے،روز مرہ اشیائے ضروریات کی کسی قیمتوں کودیکھیں تو وہ ہر غریب اور سفید پوش کی دسترس سے پرواز کر چکی ہیں،یہاں عجب ریاستی نظام ہے جس چیز کا ریٹ بڑھ گیا مجموعی طور پراس کی قیمت بڑھتی ہی رہے گا،نہ کوئی اس حرام خوری کو روکنے والا نہ کئی لگام ڈالنے والا،تیل مصنوعات کی قیمتیں آسمان تک جا پہنچیں توپبلک ٹرانسپورٹ کا کرایہ جو تب تھا آج بھی وہیں ہے،موٹر سائیکل جسے عام عوامی سواری کہا جاتاہے گذشتہ چند سال میں کم از کم ایک لاکھ روپے تک مہنگی ہوئی مگر ڈالر سستا ہو یا مہنگا ان کی قیمتیں ضرور بڑھتی رہیں گی،اتنی اندھیر نگری چوپٹ راج، نچلی سطع پر بیوروکریسی کی ہڈ حرامی اور رشوت کی بنیاد پر تویہ سب مظالم ہو رہے ہیں انہیں تو انگڑائی بھی تب آتی ہے جب کسی وین میں گیس سلنڈر پھٹ جائے لوگوں کے چیتھڑے اڑ جائیں،وفاقی سطع پر بجلی،گیس وغیرہ جیسی روزمرہ کی اور بنیادی ضروریات کی قیمتوں میں آئے روزاضافہ،ایسی پالیسیوں کی بدولت خود کشیوں کاگراف کہیں بلند ہو چکا،لوگ اپنے بچوں کو بیچ رہے ہیں،یہاں جو بھی صاحب اقتدار یا صاحب اختیار مسلط ہوا عوام کے لئے ایک نئے عذاب کی شکل میں نازل ہوا،اپنی آسائیشوں پر ماہانہ کی بنیاد پر اربوں روپے کا بجٹ رکھنے والے ہماری خاطر اپنی آسائیشوں کا قتل نہیں کر سکتے،آپس میں خلوص اور اخلاص کی ناپیدگی،نفسا نفسی کا عالم،حالات ایسے پیدا کر دئیے گئے ہیں یا ہو چکے ہیں جیسے آپس میں کوئی رشتہ ہی نہیں خود غرضی ہے،معاشرہ شدید انارکی کاشکار،کوئی محفوظ نہیں،تحفظ دینے والے خود لوٹ مار یوں مشغول ومصروف، دنیا اجڑ جائے قتل وغارت ہو جائے دن دیہاڑے لوٹ لیا جائے پھر بھی اداروں کی رہنائیاں نظر آئیں گی،کوئی بجٹ کھا رہاہے کوئی سڑک کھا رہا ہے،کوئی حق کھا رہا ہے کوئی ناحق کھا رہاہے،پہلے چیزوں میں ملاوٹ ہوا کرتی تھی اب ماحول بھی ملاوٹ زدہ کر دی گئی ہے ان رہبروں کا بس چلے تو ہوا بھی فروخت کرنے سے باز نہ رہتے،حالیہ عام انتخابات میں امیدوار چاہے اس کا تعلق کسی بھی جماعت یا بظاہر آزاد حیثیت میں تھا،کے دوران عوام انہی کے آگے ڈھولک کی تھاپ پر رقص کرتی نظر آئی جنہوں نے انہیں نوچا،ان کا خون چوسا،ان کے بچوں کی تعلیم اور صحت عامہ کا بجٹ بھی ڈکار گئے، اگر ہم خود ہی گدھے بننے کے شوقین ہیں تو گدھ نما خونخوار تو ہمیں نوچتے ہی رہیں گے تو پھر ان کا بھی کیا قصور ہے،ہم جیسے ماتم کرتے تھے اور کر رہے ہیں ویسے ہی کرتے رہیں گے،بہرحال ان کو گدھا اور مسیحاؤں کو گدھ نہ کہا جائے تو اور کیا کہیں۔

Related Articles

Back to top button