تازہ ترینکالم

فیکٹریوں کےزہریلا پانی کا ذمہ دار کون؟

تحریر شہزاد رحمت
پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے جس کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے لیکن قصور کی تحصیل پتوکی اور اسکے نواحی علاقے چاہ کلالاں والا کا زیر زمین یہ کیسا پانی ہے جس کے متعلق علاقہ باسیوں کا کہنا ہے عرصہ 25 سالوں سے معذوری بانٹ رہا ہے جس کی وجہ سے علاقہ کے بچے، خواتین، جوان اور بزرگ ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کے مرض میں مبتلا ہیں، اس گاؤں میں کلالا ککے زئی، آرائیں، کرسچن، جٹ اور رانا برادری سمیت ملک، کھوکھر، وغیرہ آباد ہیں
علاقہ کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ جو کہ ایک ہی گاؤں کے 2 نام ہیں اور یہ علاقہ پتوکی اور لاہور کی آخری حدود پر واقعہ ہے، چاہ کلالاں والا ضلع قصور کی حدود جبکہ کوٹ اسد اللہ ضلع لاہور کی حدود میں آجاتاہے اور یہاں پینے کا صاف پانی دستیاب نہ ہونے کے باعث یہاں گذشتہ دو دہائیوں سے بچے، خواتین، نوجوان اور بزرگ ہڈیوں کے ٹیڑھےپن کا شکار ہو رہے ہیں آخر ایسا کیوں ہورہا ہے جسے جاننے کی غرض سے ہم علاقہ کے مختلف لوگوں سے ملے تاکہ ان سے حقائق جاننے کی کوشش کریں، ہم علاقہ کی سیاسی شخصیت ملک علی سے ملے جہنوں نے ہمیں بتایا کہ کوٹ اسد اللہ اور چاہ کلالاں والا تقریبآ 20ہزار آبادی پر مشتعمل علاقہ ہے اور یہ لاہور سے صرف 45 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے، یہاں پینے کے پانی کی وجہ سے معذور ہونے والے افراد کی تعداد 200 سے زائد ہے،

مزید معلومات لینے کے لیے محکمہ ماحولیات پتوکی کو آر ٹی آئی فائل کرنے کے بعد ان کی جانب سے بذریعہ واٹس ایپ موصول ہونے والی مارچ 2018 کی رپورٹ میں جو انکشاف سامنے آیا اس میں محکمہ ماحولیات نے تحقیقات کرکے واٹر کمیشن کو لکھے گئے جواب میں بتایا کہ اس علاقہ میں ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کا کوئی معذور سامنے نہیں آیا، جو کہ سراسر غلط رپورٹ مرتب کی گئی حالانکہ ذرائع ابلاغ اس حوالے سے معذور افراد کی ویڈیوز اور تصاویر جاری کرچکا تھا، رپورٹ میں بتایا گیا کہ یہاں کا پانی رنگت تبدیل کر جاتا ہے اور لوگ جوڑوں کے درد، دانتوں کا پیلہ پن، اور معدے کی بیماریاں میں مبتلا ہیں, جبکہ پانی میں پائے جانے اجزاء کا تناسب کیا ہے اس کا رپورٹ میں ذکر نہیں کیا گیا،
رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا گیا کہ زیرزمین پانی کو مضرصحت کرنے میں علاقہ میں لگی فیکٹریاں شامل ہیں،

ہم چاہ کلالاں والا میں رہائش پذیر ایک فیملی سے ملتے ہیں جو کہ کئی سال پہلے ضلع ننکانہ سے یہاں آکر بسی، فیملی کے سربراہ اسلم کھوکھر نے بتایا کہ وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہے، اسلم نے ہمیں بتایا کہ کچھ عرصہ پہلے اسکی بیوی وفات پاچکی ہے، اور جب وہ ننکانہ میں رہائش پذیر تھے تو وہاں پر پیدا ہونے والے ان کے بچے جسمانی فٹنس کے حوالے سے بلکل صحت مند تھے لیکن جب وہ ضلع قصور کے علاقہ چاہ کلالاں والا میں آئے تو ان کے ہاں جو بیٹا اور بیٹی یہاں پیدا ہوئے وہ پیدائش کے چند سال بعد معذور ہونا شروع ہوگئے اسلم کی معذور بیٹی کو تعلیم حاصل کرنے کا بہت شوق ہے لیکن معذوری نے اسے تعلیم سے محروم کردیا، اسلم کا کہنا ہے کہ اس علاقہ میں اور بھی بہت سے لوگ معذور ہیں جس سے انکا ماننا ہے کہ اس سارے معاملے کی جڑ زیر زمین پانی کا مضرصحت ہونا ہے جسے پینے سے یہ بیماری لاحق ہوئی، علاقے میں قائم مختلف کیمیکل فیکٹریوں میں نکاسی کا موثر نظام نہ ہونے کے باعث زہریلے مواد زیر زمین پانی میں جذب ہو رہے ہیں اور یہی مضر صحت پانی لوگوں میں ہڈیوں کا مرض پھیلا رہا ہے

امجد نامی شخص نے بتایا کہ 1986 سے لے کر 1995 تک اس نے پرچون کی دوکان بنائے رکھی وہ صحت مند تھا اور خوب محنت اور لگن سے کام کرتا تھا اس نے بتایا کہ وہ لاہور کے علاقہ موہلنوال میں واقع فیکٹری میں بھی کام کر چکا ہے چاہے وہ مشقت کا کام تھا لیکن وہ آسانی سے کرلیتا تھا، اس نے بتایا کہ ہم ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے لیکن جب اس علاقہ میں 1990 کے بعد فیکٹریاں لگنا شروع ہوئیں تو گاؤں کا زیر زمین پانی آلودہ ہونا شروع ہوگیا، اور خاص طور پر ایک وائر کی لگنے والی فیکٹری جو کہ تیزاب کے ساتھ تار کو دھوتے تھے اور جب تیزاب فضلے میں تبدیل ہو جاتا تو اس فضلے کو ضائع کرنے کےلیے انہوں نے فیکٹری کے اندر بہت بڑا کنواں کھود رکھا تھا اور استعمال شدہ تیزاب (فضلہ) اس کنوئیں میں ڈال دیا جاتا جس سے زیر زمین پانی میں یہ فضلہ حل ہوکر علاقے کے پانی کو مضرصحت اور تیزابی کرتا چلا گیا، اور یہ پانی پینے کی وجہ سے عرصہ 20 سے 22 سال قبل امجد کو بیماری لاحق ہوئی جو کہ آہستہ آہستہ بڑھتی چلی گئی اور اس سے امجد کی ٹانگوں کی ہڈیاں کمزور اور ٹیڑھی ہوئی جس سے وہ اپاہج ہوگیا اسکے ساتھ ساتھ اسکے دانت بھی کافی متاثر ہوئے اور آہستہ آہستہ بڑھنے والی بیماری اور پٹھوں کی کمزوری کی وجہ سے پچھلے 10سالوں سے وہ بلکل ہی معذور ہوکر رہ گیا اور بیساکھیوں کے سہارے بمشکل چل پھر سکتا ہے، امجد کا کہنا ہے کہ شروع شروع میں جب یہ بیماری علاقے میں عام ہونے لگی تو لوگوں کی کافی کوششوں سے سال 2000ء میں اس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد صفدر نے گاؤں کا وزٹ کیا اور یہاں پر سرکاری فنڈز سے سرکاری ٹینکی کی تعمیر کروائی اور ٹیوب ویل لگوا کر دیا تاکہ لوگوں کو پینے کا صاف پانی میسر آسکے، اور ساتھ میں لوگوں کو مطمئن کیا گیا کہ ان فیکٹریوں کے فضلے کا زیر زمین پانی کو آلودہ کرنے سے کوئی تعلق نہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ فیکٹری مافیا بااثر تھا اور انہیں بند کروانا ناممکن تھا، امجد نے بتایا کہ پانی کی ٹینکی اور لگایا گیا فلٹریشن پلانٹ کچھ عرصہ بعد ہی ناکارہ ہو گیا, اور لوگوں کو پھر سے وہی تیزابی پانی پینا پڑا، آخرکار ایک نجی تنظیم نے گاؤں میں واٹر فلڑیشن پلانٹ نصب کروا کردیا جو سولر پر چلتا اور جس دن دھوپ نا نکلتی اس دن یہ پلانٹ نا چل پاتا اور لوگ پھر سے زیر زمین پانی پینے پر مجبور ہوتے ، امجد کا کہنا ہے کہ اب اس علاقے میں زیادہ تر معذور افراد وفات پاچکے ہیں اور بہت سے اس علاقے کو چھوڑ کر ہجرت کرگئے اور اپنے گھر، جائیداد فروخت کرگئے ہیں، بہت سے اور لوگ ابھی بھی یہاں سے جانے کے خواہشمند ہیں لیکن غربت غالب ہونیکی وجہ سے گھر نہیں چھوڑ سکتے، اس علاقہ میں اب زیادہ تر صرف غریب لوگ ہی باقی ہیں،

جبکہ متاثرہ شخص امجد علی کی بیوی نے اپنی دکھ بھری داستان سناتے ہوئے ہمیں بتایا کہ اس کے 4 بچے جن میں 2 بیٹیاں اور 2 بیٹے ہیں اور گھر کا واحد کفیل تھا اور جس وقت وہ معذور ہوا تو گھر چلانا مشکل تر ہوگیا بہت بڑا امتحان تھا میرے لیے کہ گھر سے نکل کر کمائی کروں، تاکہ اپنے بچوں کا پیٹ پال سکوں اور معذور خاوند کا سہارا بنوں اس نے بتایا کہ وہ اب ایک پرائیویٹ سکول میں نوکری کررہی ہے سکول میں صفائی ستھرائی کا کام کرتی ہوں اور وہاں سے ملنے والی اجرت سے گز بسر چل رہا ہے، یہ باتیں کرتے ہوئے شاہین بی بی آبدیدہ ہوگئی کہ اس گاؤں میں رہ کر زندگی کو بڑے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے

ہم بشیراں بی بی سے بھی ملتے ہیں جس کے نواسے معذوری کا شکار تھے اور اسکا سسر بھی ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کے مرض میں مبتلا رہا اور وفات پا چکا ہے بشیراں بی بی کا کہنا تھا کہ پینے کے پانی سے اس کے عزیز رشتہ داروں کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوئیں اور پانی نے ہی انہیں معذوری کی اذیت میں مبتلا کردیا، اسکا کہنا تھا کہ ہم غریب لوگ ہیں کس سے فریاد کریں کوئی سننے والا نہیں معذور افراد کےلیے روزگار کمانے کا کوئی ذریعہ موجود نہیں جو یہاں کی بڑی پریشانی ہے


اسی طرح سلمی بی بی اور نازیہ بی بی نے بتایا کہ ہمیں پانی لانے کےلیے دور دراز کا سفر پیدل طے کرنا پڑتا تھا ہم مٹی کے گڑھوں اور پتیلوں میں پینے کا صاف پانی اپنے سروں پر اٹھا کر لاتے تاکہ صاف پانی پی کر معذوری سے بچ سکیں ان کا کہنا تھا کہ اب لگنے والے واٹر فلٹریشن پلانٹ کی وجہ سے کچھ آسانی میسر آئی ہے ،

اسکے ساتھ ساتھ ان خواتین کا حکومت سے شکوہ کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یہاں کے لوگ بہت غریب ہیں مگر افسوس کی بات ہے کہ انہیں بےنظیر انکم سپورٹ پروگرام سے محروم رکھا گیا ہے جو ہمارے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے انہوں نے انکشاف کیا کہ 2021 میں ہونے والے سروے میں ٹیم نے ہم سے 1500 روپے اور دیگر گھروں سے ہزاروں روپے اکٹھے کیے لیکن اس کے باوجود ہمیں گورنمٹ کی جانب سے امداد نہیں دی گئی، حالانکہ حالات کے مطابق گورنمنٹ کو اس گاؤں کی خواتین کے روزگار سے متعلق خصوصی توجہ دینی چاہیے تھی،،

بشارت علی جو کہ اب محکمہ سوئی گیس میں فسٹ ایڈ وین کے ہمراہ بطور ڈسپنسر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہا ہے اس کا بتانا ہے کہ 2002 میں مضرصحت پانی کی وجہ سے اسکے پاؤں کی ہڈیاں ٹیڑھی ہوئی تھیں جس کے بعد اس نے چلڈرن ہسپتال لاہور سے آپریشن کروایا اور اب وہ چلنے پھرنے کے قابل ہے اس نے بھی معذوری بانٹنے کا ذمہ دار فیکٹریوں کو ٹھرایا، اور الزام عائد کیا کہ محمکہ ماحولیات پیسے لے کر ان فیکٹریوں سے ساز باز ہے اس کا کہنا تھا کہ یہ اتنا زہریلہ پانی ہے کہ اس سے گھاس بھی جل جاتا اور ٹھیک سے نہیں اگتا اور اس نے یہ بھی انکشاف کیا کہ اس گھاس کو کھانے والے اکثر جانور بھی ہڈیوں کے ٹیڑھے پن کا شکار ہوئے

اسی معاملے پر ہم آرتھوپیڈک کے سنئیر ڈاکٹر ابرار حنیف سے ملے تو انہوں نے بتایا کہ انسانی جسم کا 70 فیصد سے زائد حصہ پانی پر مشتمل ہے مضر صحت اور آلودہ پانی پینے سے یہ جسم کو متاثر کرسکتا ہے ان کا کہنا ہے کہ اس گاؤں کے لوگوں کو جو مسلئہ درپیش ہے انہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ یہ ریکٹس ( ہڈیوں کا مرض ) کی بیماری ہے جس میں وٹامن ڈی اور کیلشیم کی کمی شامل ہے انکا مزید بتانا تھا کہ فلورائیڈ کی زیادتی بھی ہڈیوں کو متاثر کرکے انکی کمزوری کا سبب بن سکتی ہے لیکن سو فیصد یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ لوگ زیرزمین پانی پینے کی وجہ سے ہی متاثر ہوئے,

سال 2000 میں جب اس گاؤں میں بیماری کی شدت آئی تو سب سے پہلے اس علاقہ کی سماجی شخصیت ملک محمد امین نے اس معاملے کو ذرائع ابلاغ میں اٹھا کر سیاسی رہنماؤں کی توجہ اس طرف دلوائی اس کا بتانا ہے کہ یہاں کے زیر زمین پانی کے لیے گئے نمونوں کی رپورٹ میں فلورائیڈ اور آرسینک کی بہت زیادہ زیادتی پائی گئی اور محکمہ ماحولیات نے تسلیم کیا کہ یہ زہریلہ پانی ہے اس کا کہنا ہے کہ یہ زہریلہ مواد فیکٹریوں کی وجہ سے ہی تھا جس پر گورنمنٹ نے فیکٹری مالکان کو فلڑپلانٹ لگانے کی ہدایت دی تاکہ فضلہ اور زہریلہ پانی صاف ہوکر زیرزمین شامل ہو لیکن ان پلانٹ کی مالیت کروڑوں روپے ہونیکی وجہ سے اس منصوبے کو دبا دیا گیا، ملک محمد امین نے آلودگی کے خاتمے کے لیے اس دیہات میں 95 ہزار پودے بھی لگوائے تاکہ ماحول میں بہتری آئے اور ساتھ حال ہی میں علاقہ میں واٹر فلٹریشن پلانٹ بھی لگوایا جس سے پلانٹ کی تعداد اب 2 ہوگئی ہے اور اس سے علاقہ مکینوں کو بہت فائدہ حاصل ہوا ہے، لیکن ابھی بھی مزید یہاں پر صاف پانی کے پلانٹ کی اشد ضرورت ہے،

کیا مضرصحت پانی پینے سے ہڈیاں ٹیڑھی ہوسکتی ہیں یہ جاننے کے لیے ہم نے سرکاری محکمے پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز لاہور کے ریسرچر آفیسر حبیب صاحب سے بات چیت کی ضلع قصور کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی کے نمونے لیے اور اس پر ریسرچ کرچکے ہیں انکا کہنا ہے کہ پتوکی، قصور کوٹرادھاکشن، اور چونیاں کے علاقوں کا پانی انتہائی مضرصحت ہے اور پینے کے قابل نہیں اور اگر بات کریں متاثرہ علاقہ کلالاں والا اور کوٹ اسداللہ کی تو اس میں فلورائیڈ اور آرسینک کی زیادتی پائی گئی تھی،

پاکستان کونسل آف ریسرچ ان واٹر ریسورسز کی لیب کے انچارج سرفراز احمد نے بتایا کہ پانی میں اگر فلورائیڈ کی مقدار 1.5 پی پی ایم سے بڑھ جائے تو یہ ہڈیوں کےلیے نقصان دہ ہے ان کا بتانا تھا کہ OWH کے مطابق جس پانی میں 10 پی پی بی آرسینک ہو تو وہ پینے کے قابل ہے لیکن ضلع قصور کے مختلف علاقوں میں زیر زمین پانی میں آرسینک کی زیادتی پائی جاتی ہے جو انسان کے جسم میں کینسر کا سبب بنتی ہے، انکا کہنا تھا چلڈرن ہسپتال انتظامیہ کی توجہ دلانے پر واٹر کمشنر کے ہمراہ ہماری ٹیم نے 2005 میں متاثرہ علاقے کا دورہ کیا تھا اور وہاں کے مختلف جگہوں پر لیے گئے پانی کے ٹیسٹ میں اکثر جگہوں پر فلورائیڈ کی رینج 4 پی پی ایم تک پائی گئی، فلورائیڈ کی زیادتی ہڈیوں کےلئے نقصان دہ ہے اس لیے یقیناً یہاں پر لوگوں کی ہڈیوں کا ٹیڑھا ہونے کا سبب زیر زمین پانی ہوسکتا ہے،

اسی طرح ڈاکٹر احمد جو کہ چین سے پی ایچ ڈی واٹر ریسورسز اینڈ انرجی ہیں ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کے مطابق پانی میں ٹی ڈی ایس 150 سے کم اور 250 سے زیادہ نہیں ہونا چاہیے ورنہ ان دونوں صورتوں میں ہی یہ نقصان دہ ہے 2021 میں انہوں نے پتوکی کے علاقہ چک نمبر8 میں مختلف جگہوں پر پانی کا ٹیسٹ کیا تو یہ جان کر حیرانگی ہوئی کہ ٹی ڈی ایس کا لیول 5سو سے لیکر 8سو تک تھا اور یہی وجہ کہ یہاں کی اکثریت آبادی ہڈیوں، معدے اور جوڑوں کے درد میں مبتلا ہیں، یہاں سے پانی کے لیے گئے ٹیسٹ کا مقصد نجی تنظیم کی جانب سے واٹرفلٹریشن پلانٹ لگوانا تھا،

مسئلے کی نشاندھی ہونے پر ضلع قصور کے ڈپٹی کمشنر نے تمام متعلقہ اداروں کا کئی بار اجلاس بلایا اور اس معاملے کی جانچ پڑتال کا حکم جاری کیا، لیکن جیسے ہی ڈپٹی کمشنر کی تبدیلی ہوتی معاملہ ٹھپ ہوکر رہ جاتا، اس معاملے کی انویسٹیگیشن کی غرض سے جب میں محکمہ کے ماحولیات کے آفیسر انسپکٹر محمد اشرف سے پوچھا کہ کیا اسکی وجہ فیکٹریوں کا فضلہ اور تیزابی پانی ہے تو انہوں نے کہا کہ نہیں رپورٹ میں ایسا کچھ نہیں آیا، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فیکٹریوں کا زہر آلودہ، اور تیزابی پانی ذمہ دار نہیں تو پھر اس علاقہ میں اس بیماری کی اصل وجہ ہے کیا، جو 25سال گزرنے کے باوجود سامنے نہیں آسکی، دوسری طرف ہم علاقہ کے جن لوگوں سے ملے وہ محکمہ ماحولیات پر الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ انہیں سب معلوم ہے لیکن وہ فیکٹری مافیا کا ساتھ دے رہے ہیں،،
جبکہ حاصل کردہ مارچ 2018 کی محکمہ ماحولیات کی رپورٹ میں زیر زمین پانی کو مضرصحت کرنے میں فیکٹریوں کو ملوث تو قرار دیا گیا لیکن اسی رپورٹ میں ہی ہڈیوں کے مرض میں مبتلا معذور افراد کو نظر انداز کرکے کہہ دینا کہ یہاں کوئی معذور نہیں ہے، متضاد بیان سمجھ سے بالاتر ہے،

تحصیل پتوکی میں محکمہ لیبر کے مطابق 70 فیکٹریاں ہیں، چاہ کلالاں والا میں موجود وائر فیکٹری کا موقف لینے کے لیے ہم نے ایڈمن غلام نبی سے رابطہ کیا جو 2020 کے بعد سے یہاں پر جاب کررہا ہے اس نے بتایا کہ ہم تیزابی پانی کو زیر زمین تلف نہیں کررہے ان کا کہنا تھا کہ ہم فیکٹری میں تار کو تیزاب سے دھونے کے لیے 70فیصد پانی میں 30فیصد پانی شامل کرتے ہیں جس کے بعد زیر زمین دبائے گئے 3 مختلف ٹینکوں میں سے اس فضلے کو ٹریٹمنٹ پروسیس کےلیے گزارا جاتا ہے، اور ایک خاص قسم کے ایسڈ کا بھی استعمال کیا جاتا ہے جس سے تیزاب کا اثر زائل ہو کر 0.05 پوائنٹ رہ جاتا ہے اور اس فضلے کو دیگر بڑی کیمیکل انڈسٹری میں بھجوا دیا جاتا ہے جہاں گورنمنٹ کے این او سی اور جاری کردہ قواعد ضوابط کے مطابق تلف کردیا جاتا ہے ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقہ میں زیادہ تر فیکٹریاں اسی طرح سے ہی فضلے کو تلف کررہی ہیں،

مقامی لوگوں نے بتایا کہ موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف 2013 میں اسی علاقہ سے الیکشن لڑ کر جیت چکے ہیں اور گاؤں میں بننے والے اسپتال کا نام بھی لوگوں نے شہباز شریف ہسپتال رکھا، علاقہ مکینوں نے علاقہ میں پھیلی بیماری سے متعلق وزیراعظم سے دردمندانہ اپیل کرتے ہوئے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے، اور اپیل کی ہے لوگوں کی فلاح بہبود کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں معذور افراد کے معذوری شناختی کارڈ بنوائے جائیں تاکہ بھیک مانگتے معذور افراد اور ان کے اہل خانہ کو روزگار میسر آسکے، اور احساس کفالت پروگرام میں بھی ان لوگوں کے نام شامل کیے جائیں

Related Articles

Back to top button