*آزادہے میرا وطن*
کس کا دل نہیں چاہتا کہ وہ ایک آزاد فضا میں سانس لے ،بے خوف و خطر جہاں چاہے گھومے بھرے اور اپنے ملک اور دین کی خاطر کام کرے ،آزادی سے اپنا کاروبار کرے اور اپنے ملک اور اہل عیال کی معیشت کو مستحکم کرے ،اپنے ملک کی ترقی میں کردار ادا کرے اور اسے دنیا کے دیگر ترقی یافتہ ممالک کی صف اول میں جا کھڑا کرے ۔
مگر یہاں ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا ملک کی آزادی ،ترقی علحدہ اور ہما را دین اسلام علحدہ ہیں یا ان کے درمیان کوئی رشتہ ہے ،کیا ہم ملک کی ترقی کو اپنے دین سے علحدہ کے اپنی پہچان بنا سکتے ہیں ،کیا ہم اپنے ملک کی آزادی کو صرف اتنا کہ کر کہ پاکستان کلمے کی بنیاد پر نہیں بنا علحدہ کر سکتے ہیں یا پھر ہم قائد اعظم پر یہ بہتان لگائیں کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ اللہ،،
قائد نے ہمیں انگریز سے آزادی دلوائی ہمیں اپنے قائد کی جرئات پر فخر ہے ،ہم اپنے بڑوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں اور ان کے احسانات کا بدلہ چکانے کے لائق بھی نہیں وہ ہمارے محسن تھے ،ہم ان کے احسان مند ہیں ،
مگر اس وقت ہم مجبور ہیں ،ان کی دی ہوئی آزادی ہم سے چھین لی گئی ہے ، انہوں نے ہمیں انگریز سے آزادی دلوا دی ،مگر وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ہماری قوم کو بعد میں آنے والے ہمارے اپنے ہی غلامی کی زنجیروں میں جکڑ لیں گے ،وہ اس بات سے نا واقف تھے کہ ہماری قوم کے منہ سے ہمارے ہی حکمران روٹی کا نوالہ چھین لیں گے ،اور ہماری قوم کو لولا،لنگڑا،اپاہج بنا کر دنیا کے سامنے بھیک مانگنے کے لئے پیش کر دیں گے ،
میرے وطن کی آزادی میں کسی کو شک نہیں ہونا چاہیے ،یہ آزاد ہے مگر صرف ظاہری طور پر یہاں پر آزادی کے بعد بھی غلامی کا طوق ہما رے گلے میں لٹکا دیا گیا ہے ہماری آزادی کو دنیا کی نظر سے اوجھل ہو کر نگلنے کی کوشش کی جا رہی ہے ،ہماری زبانوں کو تالے لگا دئے گئے ہیں ،ہمارے جذبات کو دفن کر دیا گیا ہے ،
اور ہمارے بازو کاٹ دئے گئے ہیں ،ہاں میرے بھائیوں میرا وطن آزاد ہے ،کو ن نہیں جانتا یہ آزاد ہے ،اس کی آزادی کے نعرے ہمارے نام نہاد حکمران امریکہ اور یورپ کے کلیساؤں میں جوش اور جذبے کے ساتھ لگاتے ہیں
راہزن ہی راہزن ہیں ،رہبروں کے بھیس میں ،،،،لٹ گیا امید کا ہر کارواں اس دیس میں
کربلا سے ملتی جلتی خوں چکا روداد ہے ،،،،،، کون کہتا ہے میرا پیارا وطن آزاد ہے
اور ہم بھی جھوم جھوم کر ان کے کھوکھلے نعروں کو سچ سمجھنے لگتے ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں ہم اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ یہی حکمران ہم پر کیاکیا ظلم نہیں ڈھاتے ،
افسوس کہ ہم آج تک اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہما را ملک تو آزاد ہے مگر ہم آزاد نہیں ،ہمارے ملک کی آزادی کی باتیں تو ہر سٹیج پر کی جاتی ہیں ،مگر ہمارے عوام کی آزادی کہاں گئی اس بات پر کوئی بات کرتا ہے اور نا ہی کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،ہمارے عوام کی آزادہ کا سن کر ہمارے بڑوں کے رنگ فک ہو جاتے ہین اور وہ یہ بات سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ اگر عوام طاقتور ہو گئے تو ہم کہاں جائیں گے ،
ہمارے بڑوں کے کام دھندھے اسی وقت تک کامیاب ہیں جب تک ہمارے عوام مین شعور بیدار نہیں ہو جاتا ،ہمارے عوام کو ان کے مسائل میں الجھانے والی گولیاں دے کر سلا دیا گیا ہے اور جب وہ اس نیید سے جاگنے کی کوشش کرتے ہیں تو مہنگائی کی مزید گولیوں سے ان کے حواس خامسہ کو مفلوج کر دیا جاتا ہے ،
مگر کب تک ،آخر کب تک ،،،؟
ہمارے بڑوں کی یہ مکاریاا8 کب تک چلیں گیں ،؟کب تک ہمارے عوام کو ستایا جائے گا ،؟
کبھی تو کوئی صلاحالدین ایوبی آئے گا ،کبھی تو کسی محمدبن قاسم کی غیرت جاگے گی ،یہ کب آئے گے ہم نہیں جانتے مگر اتنا جانتے ہیں کہ آئے گا ضرور آئے گا کیوں کہ قوم کو اس وقت ایک مسیحا کی ضرورت ہے
جو ہماری قوم کی سلب کی گئی آزادی کو چھین کر ہمارے عوام میں بانٹے عوام کے دکھوں کا مداوا کرے ،
عوام کے جسموں پر لگائے گئے زخموں پر مرہم پٹی کرے ،کیوں کہ بہت عرصہ گزر چکا ہمارے عوام کے جسموں کو چھیدا جا رہا ہے عوام کے انگ انگ کو کرید کے اس میں زہر بھر دیا گیا ہے ،جنہیں بھرنے میں وقت تو لگے گا مگر کئی آئے گا تب ہی یہ زخم بھرے جائیں گے اور پھر ہم پرفضا پاکستان میں کھڑے ہو کر یہ بات کہنے کے حقدار کہلوائیں گے کہ ہمارا وطن آزاد ہے ،ہم آزاد ہیں ،اور یہ آزادی ہمارے دین کی نسبت سے ہمیں ملی ہے
You must be logged in to post a comment.