
علاوہ ”آر پار“ آنے جانے کے طریقہ کار کو آسان بنانے کی بات بھی کی گئی۔نوجوان ”امن عمل“ جاری رکھنا چاہتے ہیںاور انہیں یقین ہے کہ” ٹریڈ اینڈ ٹریول“ کوئی حل نہیں ہے لیکن لیکن اس سے منطقی حل کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
ضلع مظفر آباد ،ضلع میر پور،اور آدھ ضلع پونچھ،یہ ہے وہ علاقہ جس پر تمام ریاست جموں و کشمیر کی نمائندگی پر مبنی انقلابی حکومت قائم کرتے ہوئے اسے آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا نام دیا گیا اور اسی مناسبت سے ڈوگرہ و انڈین آرمی سے آزاد کرائے گئے اس علاقے کو آزاد کشمیر کا نام دیا گیا ۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکومت کی طرف سے آزاد کشمیر کو کئی طرز حکومت دیئے گئے۔1970ءمیں صدارتی طرز حکومت اور 1974ءمیںپارلیمانی طرز حکومت دیا گیا۔1948ءمیں آزاد کشمیر حکومت گلگت بلتستان کو وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کے بعد ایکٹ1974ءکے ذریعے مسئلہ کشمیر کی ذمہ داریوں سے بھی دست بردار ہوتے ہوئے مفادات اور شخصیت پرستی کی بنیاد پر برادری ازم و علاقائیت کی سیاست کی ترویج ہوئی ۔یہ بھلا دیا گیا کہ آزاد کشمیر کی تقریبا چالیس لاکھ آبادی ،پٹی کی شکل کے مختصر رقبے والے علاقے کو آبادی و رقبے سے قطع نظرریاستی پرچم،ترانے،سپریم کورٹ سمیت ایک ریاست کی طرح کا درجہ اسی لئے حاصل ہے کہ یہ آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر ہے جبکہ اب آزاد کشمیر میں یہ سمجھا جا رہا ہے کہ یہ آزاد کشمیر حکومت ہے۔یعنی سٹیٹس تو تمام ریاست جموں و کشمیر کا انجوائے کیا جائے اور ذمہ داریوں کاتعین صرف اپنی علاقائی حدود میں محدود کر دیا جائے۔آزاد کشمیر کا تو نام ہی پار والے جموں و کشمیر سے منسوب و مربوط ہے،اگر کنٹرول لائین کو لائین آف کامرس یا کسی بھی نام سے مستقل حیثیت دینے کا یہیں سے مطالبہ ہے تو کس بنیاد پر آزاد کشمیر کا موجودہ خطہ بدستور موجودہ سیاسی سٹیٹس انجوائے کر سکتا ہے؟ یہ بھی بھلا دیا گیا ہے کہ آزاد کشمیر و گلگت بلتستان، وادی کشمیر،لداخ کرگل ،جموں سمیت وہ متنازعہ ریاست کے علاقے ہیں جس کے مستقبل کا فیصلہ کیا جانا ابھی باقی ہے۔مقبوضہ کشمیر کے عوام تو نسل در نسل بھارت کے بھرپو ر ،بدترین مظالم ،بے مثال قربانیوں کے باوجود اپنے مطالبہ آزادی سے دست بردار نہیں ہوئے لیکن آزاد کشمیر کے نوجوان ان آزاد فضاﺅں میں اپنی تاریخ،اپنی ذمہ داریاں تو کیا اپنی سمت اور شناخت بھی کھوتے جا رہے ہیں۔انحطاط پزیری کا یہ مقام ،اللہ اللہ۔اگر اس بارے میں بھی ہماری نوجوان نسل ناواقف ہے تو یہ ”آثار قیامت ہیں“۔
چند ہفتے قبل ” زبانوں کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان کے ایک روزنامہ اخبار کے پہلے صفحہ پہ چھ سات زبانوں کے چند الفاظ بھی لکھے گئے۔آخر میں درج کشمیری زبان کے آگے تحریر الفاظ گوجری زبان کے تھے۔رابطہ کر کے گوش گزارش کیا کہ گوجری ایک بڑی زبان ہے اور اس میں اہم ادبی مواد بھی ملتا ہے۔میں گزشتہ سال وادی کشمیر گیا تو کشمیر کلچرل اینڈ لینگویجز اکیڈمی سے قرآن پاک کا گوجری زبان میں نسخہ بھی اپنے ساتھ لایا۔گوجری کوکشمیری زبان کہہ کر ناواقف لوگوں میں متعارف تو نہ کرایا جائے ۔دوسرا واقعہ یوں ہے کہ بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1988ءمیں شروع ہونے والی مسلح جدوجہد آزادی کے شروع کے دن تھے۔عید کا موقع تھا اوروادی کشمیر کے دو نوجوان عزیزوں کے ساتھ میں راولپنڈی کے ایوب نیشنل پارک گیا۔وہاں گورڈن کالج کے ایک کلاس فیلو سے ملاقات ہوئی۔میں نے کشمیری حریت پسندوں کا ان سے تعارف کرایا ۔ان میں ایک عبدالغیور ڈار تھے جن کے پاﺅں کنٹرول لائین عبور کرتے ہوئے برف سے جل جانے کی وجہ سے آدھے آدھے آپریشن میں کٹ چکے تھے ۔میرا دوست بلال نہایت گرمجوشی سے ان سے ملا ۔اتنے میں اس نے بتایا کہ ابھی یہاں میرے ساتھ ایک اور بھی کشمیری موجود تھا،وہ بھی کشمیری بولتا ہے۔یہ سن کر مجھے حیرت ہوئی کیونکہ اس وقت خال خال ہی کوئی کشمیری بولنے والا نظر آتا تھا۔میں نے اشتیاق سے کہا کہ اسے بلاﺅ۔میرادوست گیا اور چند ہی منٹ میں اس کشمیری نوجوان کو تلاش کر کے لے آیا۔میں نے اسے دور سے آتے دیکھا ، جینزکی پینٹ میں ملبوس سرخ و سفید نوجوان کو دیکھتے ہی پہچان گیا کہ وہ راولاکوٹ علاقے کا کوئی نوجوان ہے۔میں اور بھی حیران ہوا کہ راولاکوٹ میں رہنے ولا نوجوان کشمیری بولتا ہے۔اس نوجوان سے کشمیری بولنے کی فرمائش کی تو وہ ہماری شکل دیکھنے لگا اور سر جھکا کر خاموش ہو گیا۔ہمارے بہت اصرارپر اسے بولنا ہی پڑا۔ہم مزید حیران ہوئے کہ وہ نوجوان کشمیری زبان کی جگہ پہاڑی زبان بولنے لگا،میں نے اس سے کہا کہ یہ کشمیری زبان ہے ،اس نے جواب دیا کہ ہاں یہی کشمیری زبان ہے۔اس پر میرے ساتھ موجود کشمیری حریت پسند نے اپنے ساتھی کو کشمیری میں کچھ کہا تو میں نے راولاکوٹ کے اس نوجوان سے پوچھا کہ یہ کون سی زبان ہے؟ لیکن شاید اس کے پاس ان باتوں کا جواب نہیں تھا۔میں نے اس نوجوان سے بھی کہا کہ پہاڑی زبان نامور زبان ہے،آپ کیوں نہ جاننے والے افراد کو اسے کشمیری کہہ کر متعارف کراتے ہیں۔گوجری،پہاڑی بلکہ ڈوگری بھی پنجابی زبان کے مختلف لہجے ہیں اور پنجابی سمجھنے والا گوجری ، پہاڑی وغیرہ بھی سمجھ لیتا ہے۔
گزشتہ پچیس سال میں مقبوضہ کشمیر کے ایک لاکھ سے زائد لوگ شہید ہوگئے جن میں اکثریت نوجوانوں کی ہے،ہزاروں بھارتی جیلوں ،عقوبت خانوںمیں قید،ہزاروں معذور،ہزاروں در بدر،لاکھوں برباد،ہزاروں بیوائیں ،ہزاروں یتیم۔پاکستان نے تو عملی طور پر بھارت کے ساتھ ایسی مقدس کنٹرول لائین قائم کی ہوئی ہے جس کی” پامالی“ پہ امریکہ بھی چیخ اٹھتا ہے ،پاکستانی حکومتیں1947-48ءسے اب تک کشمیریوں کی مدداور حمایت ایک گناہ کے انداز میں کرتی چلی آ رہی ہیں لیکن معلوم نہ تھا کہ یہاں یہ دن بھی دیکھنے پڑیں گے کہ جب آزاد کشمیر میں بھارتی مقبوضہ کشمیر سے الگ اپنی کوئی علیحدہ شناخت تلاش کی جائے گی ۔
میں نے ایک بار جسٹس (ر)منظور گیلانی سے گلگت بلتستان سے متعلق آزاد کشمیر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عبدالمجید ملک کے تاریخی فیصلے اور اس فیصلے کے خلاف آزاد کشمیر حکومت کی اپیل پر سپریم کورٹ کے فیصلے کی بنیاد سے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتا یا کہ آئین کے مطابق آزاد کشمیر کا مطلب آزاد کشمیر کی علاقائی حدود ہیں۔ در اصل وادی کشمیر ہی تما م ریاست کا مرکز رہا ہے ،مرکز سے گریز کا مطلب قریبی دوسرے علاقے میں مدغم ہونے کے سوا کچھ نہیں اور کس حیثیت سے شامل ہو گا اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے مستقبل کے مستقل وفاقی انتظامات میں ایک آپشن یہ بھی ہے کہ مظفر آباد کو ہزارہ اور میرپور کو جہلم سے ملا دیا جائے۔
کیا آپ دیکھتے نہیں ہیں کہ آج آزاد کشمیر کے آٹھ دس اضلاع ایک دوسرے کے مسائل و امور سے لا تعلق،بیزار،اپنے اپنے ضلعے کے مسائل و امور میں محدود ہیں اور اسی حوالے سے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ اب آزاد کشمیر کے ہر ضلع کا اپنا مسئلہ کشمیر ہے۔دوسرا آزاد کشمیر میںتاریخ کو جس بری طرح مسخ کیا گیا ہے اور سیاسی گراوٹ ،تعصب وغیرہ کی وجوہات سے آج کی نسل اپنی ماضی سے کٹی ہوئی نظر آتی ہے۔آزاد کشمیر میں برادری و علاقائی ازم کی سیاست کی دھول میں یہ بھول چکے ہیں کہ ان کے علاقے میں تمام ریاست کشمیر کی حریت پسند نمائندہ حکومت قائم کی گئی تھی جسے برادری ،علاقائی ازم اور محدود سوچ نے ایک تماشے میں تبدیل کر دیا ہے۔اقوام متحدہ اور عالمی لغت کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر میں لوگوں پر بھارت بدترین فوج کشی کرتے ہوئے جو بھیانک مظالم ڈھا رہا ہے،آزاد کشمیر میں اس کا ہلکا سا تاثر یا کسی قسم کی ذمہ داری محسوس نہیں کی جاتی۔وہ بھول گئے کہ انہوں نے اپنے جن مظلوم کشمیری بھائیوں کی بھارت سے آزادی ،تحریک آزادی کشمیر کی نمائندگی کے عزم سے ایک نئے نام(آزاد کشمیر) کے ساتھ ایک مکمل ریاست کے طور پر انقلابی حکومت ،کشمیری تشخص پر مبنی علاقہ حاصل کیا تھا لیکن وہ اپنے مظلوم کشمیری بھائیوں کو بھول کر مفادات اور مقامی نوعیت کے جھگڑوں میں یوں ملوث ہوئے کہ خود کو حاصل مقام بھی نہ سنبھال سکے ، اپنی سمت بھی کھو چکے ہیں اور اب یوں محسوس ہو رہا ہے کہ جوں جوں اپنی جڑیں اپنے ماضی سے کاٹتے جا رہے ہیں توں توں گراوٹ اور انحطاط پزیری کی نئی حدیں تلاش کرنے کی طرف پیش قدمی جاری ہے
