وطنِ عزیز پاکستان میں بجلی اور گیس کے بحران کے بعد آج کل کچھ دنوں سے پیٹرول کا بحران بھی جاری ہے ۔ موسمِ گرما میں بجلی کی پیداواراپنی صالاحیت کے مطابق ہوتی ہے اور طلب میں اضافہ کا موجب عوام گرمی سے نجات کے لئے جو پنکھے ، ایئر کنڈ یشنر اور فریج کا استعمال کرتے ہیں وہ بنتا ہے ۔لیکن سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ یہ موسمِ سرما میں بجلی کی طلب پوری کیوں نہیں ہوتی ؟ یہ سچ ہے کہ موسمِ سرما میں پانی کے برف بن جانے کی وجہ سے بجلی کی پیداوار کم ہوتی ہے لیکن طلب میں اضافہ کیسے ہوتا ہے جبکہ ہماری ’’نادان ‘‘ عوام سردی کے موسم میں پنکھے ، ایئر کنڈ یشنر اور فریج وغیرہ کا استعمال ترک کر دیتے ہیں جس سے بجلی کی طلب میں کمی آنی چاہیے اگر پھر بھی بجلی طلب کے مطابق نہیں پیدا ہوتی تو یہ ہمارے حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ سستی بجلی پیدا کریں یا خریدیں اور عوام کو بجلی کی سہولت بہم پہنچائے لیکن سینٹ میں پانی و بجلی کی قائمہ کمیٹی کے بقول حکومت سستی بجلی پیدا کرنے یا خریدنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حالیہ بجلی کے بلوں میں ’’نادان‘‘ عوام کوجتنی رعایت دے کر پیسے کم کئے گئے اُتنے ہی پیسے پھر اسی بل میں مختلف ٹیکسوں کی مد میں واپس بھی بٹور لئے گئے اور ہم ’’نادان‘‘ عوام خوش ہو رہے ہیں کہ حکومت نے ہمارے لئے بجلی سستی کر دی ۔ اس ماہ صارفین کو آنے والے بجلی کے بلوں میں جہاں 400سے 500 روپے تک رعایت دی گئی جو کہ عام دیہاڑی دار مزدوروں کے گھریلو بل ہیں وہاں پی ٹی وی فیس کے ساتھ ایکFurther Tax اور نیلم جہلم سرچارج ، انکم ٹیکس ،سیلز ٹیکس اور نا جانے ہر بل میں تھوڑے سے بقایا جات (جو ناجانے کیسے باقی رہ گئے جب کہ گزشتہ ماہ کا پورا بل ادا ہو چکا )کی مد میں پھر سے جتنی رعایت دی گئی اُتنی ہی رقم پھر کل ادا ہونے والی رقم میں جمع ہو گئی اور ہم عوام بجلی سستی ہونے پر بہت خوش ۔موسمِ سرما کے آغاز سے ہی گیس کی کمی کا بھی عوام شکار ہے اور سی این جی کے لئے لمبی لمبی قطاریں سی این جی سٹیشن پر لگی ہوتی ہیں ہم ’’نادان ‘‘ عوام امید لگائے بیٹھے تھے کہ موجودہ حکمران یہ قطاریں ختم کروائے گی مگر حکومتِ وقت نے پٹرول پمپس پر پٹرول کے لئے لائنیں لگوا کر ہم ’’نادانوں‘‘ کو ایک اور تحفہ دیا ۔حکومت نے پٹرول سستا کر کے ہم عوام پر احسان ہی تو کیا ہے کیوں کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں 1 بیرل پٹرول کی قیمت 56 ڈالر ہے اور 1 بیرل میں 159 لیٹر پٹرول ہوتا ہے ڈالر کی پاکستانی قدر کے مطابق بین الاقوامی مارکیٹ میں 159 لیٹر پٹرول کی قیمت 5656 روپے بنتی ہے تو بین الاقوامی مارکیٹ میں فی لیٹر پٹرول 35 روپے کا ہے لیکن اللہ کے فضل سے ہمارے حکمرانوں کی نظر کرم سے پٹرولیم مصنوعات پر جو ٹیکس لگایا گیا ہے اس کے بعد ہم ’’نادان‘‘ عوام پٹرول 79.50 فی لیٹر حاصل کر رہے ہیں ۔ جب سے پٹرول بحران کا آغاز ہوا ہے تب سے اب تک حکمران کے کسی بڑے نے ذمہ داری قبول نہیں کی یہ تو بھلا ہو جناب چوہدری نثار صاحب اور خواجہ سعد رفیق کا کہ انہوں نے عوام سے معذرت کی اور پٹرول بحران کا ذمہ دار اپنی حکومت کو ٹھہرایامگر جس طرح سب سے بڑے ذمہ دار وزیرِخزانہ اس معاملے سے نکلے ہیں لگتا ہے وہ اس کے ذمہ دار ہی نہیں ۔ باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وزراتِ خزانہ نے آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لئے ادائیگیاں روکی ہوئی تھیں اور جس کے باعث پاکستان سٹیٹ آئل ادائیگی کر کے پٹرول نہ منگوا سکا۔ اب وزیر اعظم صاحب نے پٹرول بحران کے ذمہ داروں کے تعین کے لئے دو اجلاس کئے مگر جس پر ذمہ داری آئی وہ اپنا نکلا اور بھلا میاں صاحب اپنوں کے خلاف کاروائی کیسے کرتے اس لئے پٹرول بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے کمیشن بنا دیا گیا ہے جو اپنی رپورٹ بنا کر پیش کرے گا اور پھر اس کمیشن کی رپورٹ کا وہی ہو گا جو آج تک بننے والے کمیشنوں کی رپورٹوں کے ساتھ ہوتا آیا ہے ۔ قانون کے مطابق حکومتِ وقت کو حق حاصل ہے کہ کمیشن کی رپورٹ پر ذمہ داروں کو سزا دے یا نہ دے ۔ موصول ہونے والی خبروں کے مطابق فرنس آئل بھی ختم ہونے جا رہا ہے اگر فرنس آئلختم ہو گیا تو ہم ’’نادان ‘‘ عوام کو آئندہ آنے والے دنوں میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ کے لئے تیار ہو جانا چاہئے پھر نہ کہنا کہ خبر نہ ہوئی ۔
صاحبو! اس وقت امریکہ کی حکمران پارٹی جو ہے اس کا انتخابی نشان گدھا ہے اور وہ گدھا اپنے ملک کے ساتھ باقی ممالک پر بھی حکم چلاتا ہے اور ہمارے حکمرانوں کا نشان شیر ہے لیکن یہ شیر تو گدھے سے بھی ڈرتا ہے اور اپنے ملک میں عوام کو بنیادی سہولیات آسانی سے پہنچانے سے قاصر ہے ، کبھی بجلی کا بحران ، کبھی گیس نہیں تو کبھی پٹرول ختم تو کبھی آلو کھانے کو نہیں تو کبھی آٹے اور چاول کی قلت کے ساتھ چینی بھی ختم ہو جاتی ہے۔ ہمارا یہ شیر ان بحرانوں کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ اپنے اس شیر کی حالت کو دیکھ کر مجھے ایک ہندی کہانی یاد آ رہی ہے جو کہ میں آپ صاحبان کو سناتا ہوں ۔کہیں ایک خوبصورت گاؤں تھا جو چاروں طرف بلند پہاڑوں سے گھرا ہوا تھا ان پہاڑوں کے پیچھے ایک شیر رہتا تھا ۔ جب کبھی شیر ان پہاڑوں پر چڑھ کر گرجتا تو گؤں والے خوف سے تھر تھر کانپتے ۔ سخت سردی اور برف باری کی وجہ سے سارا علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا ۔ شیر کئی دنوں سے بھوکا تھا شکار ہی نہیں مل رہا تھا ۔ بھوک کے ہاتھو ں تنگ آ کر شیر گاؤں میں گھس کع شکار کی تلاش کرنے لگا ۔اسے ایک کچا گھر نظر آیا جس کی کھڑکی سے چراغ کی روشنی باہر آرہی تھی ۔ شیر اس کھڑکی ک پاس آ کر اس امید سے بیٹھ گیا کہ شاید یہاں سے کچھ کھانے کو مل جائے ۔ اس گھر میں ایک بچے کے رونے کی آواز آرہی تھی ۔شیر نے اِدھر اُدھر دیکھا اور گھر کے اندر داخل ہونے والا ہی تھا کہ اسے عورت کی آواز آئی جو بچے کو کہہ رہی تھی کہ چپ ہو جا دیکھو لومڑی آرہی ہے وہ بہت بھیانک ہے ۔ یہ سنتے ہی شیر کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے اور شیر پھر کھڑکی کے پاس آکر بیٹھ گیا مگر وہ بچہ نہ یہ سن کر ڈرا اور نہ ہی رونا بند کیا ۔ پھر عورت کی آواز آئی وہ دیکھو اتنا بڑا بھالو کھڑکی کے نیچے بیٹھا ہے ۔ یہ سن کر شیر تو ڈر گیا مگر بچے کا رونا بند نہیں ہوا ۔شیر سوچنے لگا کتنا بہادر بچہ ہے جو نہ لومڑی سے ڈرتا ہے اور نہ ہی بھالو سے۔ اتنے میں عورت بولی دیکھو شیر آگیا ،کھڑکی کے نیچے بیٹھا ہے ۔ شیر کا خیال تھا کہ اب بچہ ڈر کر چپ ہو جائے گا مگر بچہ روتا رہا ۔ شیر کو اب اس بچے سے ڈر لگنے لگا تھا کیوں کہ شیر نے آج تک ایسا جاندار نہیں دیکھا تھا جو شیر سے نہ ڈرتا ہو ، اس کا نام سنتے ہی بڑے بڑے سورما کانپتے ہیں مگر اس بچے کو شیر کی پرواہ ہی نہیں تھی ۔شیر کو اب اپنی فکر ہونے لگی تھی ۔ اتنے میں عورت کی آواز آئی یہ لو کشمش ، اب تو چپ ہو جاؤ !۔ یہ سنتے ہی اس رونے والے بچے کی آواز بند ہو گئی ہر طرف سناٹا چھا گیا ۔شیر سوچنے لگا یہ کشمش کیا چیز ہے ، ضرور کو ئی خونخوار اور بھیانک چیز ہو گی ۔شیر کشمش کا سوچ کر کانپنے لگا ۔اسی لمحے کو بھاری سی چیز اوپر سے گری ۔شیر سمجھا شاید کشمش ہی اس کے اوپر کودا ہے ۔بس پھر کیا تھا شیر بری طرح خوف زدہ ہو گیا اور اندھا دھند بھاگنے لگا ۔ اصل میں اس گھر میں چور بھینس چوری کرنے آیا تھا اور اندھیرا ہونے کی وجہ سے چور شیر کو بھینس سمجھ کر اس کے اوپر کود گیا ۔ مگر بعد میں جب اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چور شیر کی گردن سے چمٹ گیاکیونکہ شیر تیزی سے بھاگ رہا تھا تاکہ کشمش سے جان چھوٹ جائے اور چور کو اندازہ تھا کہ اگر شیر نے اسے گرا دیا تو اسے زندہ نہیں چھوڑے گا ۔شیر چور سے ڈر رہا تھا اور چور شیر سے ،دونوں کو اپنی اپنی جانوں کی فکر تھی ۔کچھ دیر بعد صبح کا اجالا پھیلنے لگا تو چور کو سامنے ایک درخت کی شاخیں لٹکتی ہوئی نظر آئیں اس نے بھاگتے ہوئے شیر کی پیٹھ سے اچک کر شاخ کو پکڑ لیا اور جھٹ سے درخت کے اوپر چڑھ گیا ۔یہ دیکھ کر شیر نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اس کشمش نامی بلا سے جان بچ گئی دوسری طرف چور نے سکون کا سانس لیا ۔ شیر بھاگتا ہوا پہاڑی کے دوسری طرف واقع اپنے غار میں چلا گیا اور کشمش کے خوف سے کئی روز تک غار سے باہر نہیں نکلا ۔
تو صاحبو ! ہمارے شیر کا بھی یہ ہی حال ہے یہ جو بنیادی ضروریات کی اشیاء کا بحران پیدا ہوتا ہے یہ بحران ہمارے شیر کے لئے کشمش ہی ہیں اور ہمارا شیر اس کشمش سے ڈر کر جان چھڑانے کی کوشش میں آگے آگے بھاگ رہا ہے ۔کہیں یہ نہ ہو یہ کشمش ہمارے شیر کو اس کے غار میں لے جائے ۔دعا ہے کہ ہمارے شیر کو امریکہ کے گدھے جتنی طاقت نصیب ہو اور ہمارا شیر اس کشمش سے ڈٖرنے کی بجائے اس کشمش کو کھا کر ہم عوام کی جان ان بحرانوں سے آزاد کروائے اور وطنِ عزیز پاکستان دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے (آمین)
You must be logged in to post a comment.