انور عباس انورتازہ ترینکالم

ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ کا افشا ء اور قومی سلامتی

anwar abasیہ کوئی پہلی بار تو نہیں ہوا ہے کہ پاکستان کی سلامتی سے جڑی ہوئی خفیہ رپورٹس کی اشاعت حکومت وقت کی بجائے کسی غیر ملکی نشریاتی ادارے کی جانب سے ہوئی ہو۔اس سے قبل سانحہ سقوط پاکستان کے عوامل کی تحقیقات کے لیے قائم حمود الر حمان کمیشن کی رپورٹ بھی بھارتی اور دیگر ممالک کے میڈیا کے ذریعہ منظر عام پر آ چکی ہے ۔اب ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ بھی ایک برادر اسلامی ملک قطر کے ٹی وی چینل الجزیرہ نے افشا ء کر کے ہماری قومی سلامتی اور ہماری حب الوطنی پر سوالیہ نشان لگا دئیے ہیں۔ میں تو اسے پاکستان کی بد قسمتی سے ہی تعبیر کروں گا کہ حکومت پاکستان اس رپورٹ کی حفاظت کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
اوپر میں نے ذکر کیا ہے کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس سے قبل دسمبر1971 میں رونما ہونے والے سانحہ ’’سقوط ڈھاکہ ‘‘ کے باعث بننے والے عوامل کا پتہ لگانے کے لیے قائم کردہ ’’حمود الرحمان کمیشن ‘‘ کی رپورٹ بھی متعدد بار غیر ملکی ذرائع ابلاغ کے توسط سے منظر عام پر آ چکی ہے۔ان غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ میں کلیدی کردار ادا کرنے والابھارت شامل ہے۔لیکن 1971 کے بعد قائم ہونے والی تمام حکومتوں نے قومی سلامتی کے نام پر سرکاری طور پر ’’ حمود الر حمان کمیشن رپورٹ ‘‘ کو عوام کے ساتھ شیئر نہیں کیا۔اسی طرح سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں قائم ایبٹ آباد کمیشن نے اپنی رپورٹ فروری میں حکومت کو پیش کردی تھی لیکن نامعلوم وجوہات کی بنا پر حکومت نے اسے عوام سے شیئر نہیں کیا۔
وزیر اطلاعات کہتے ہیں کہ حکومت اس امر کی تحقیقات کروائے گی کہ اس قدر خفیہ رپورٹ ایک غیر ملکی نشریاتی ادارے کے ہاتھ کیسے لگی؟شنید ہے کہ خفیہ اداروں سمیت دیگر اداروں نے اس بات کا کھوج لگانے کے لیے کام کا آغاز بھی کر دیا ہے۔ تحقیقاتی کام پر مامور حکام کے لیے ایک مشور ہ ہے کہ وہ ادھر ادھر ٹامک ٹوئیاں مارنے کی بجائے اگر اسلام آباد کے ایک اینکر سے رابطہ کر لیں تو انہیں زیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ کیونکہ اس اینکر کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ ’’ الجزیرہ ٹی وی ‘‘ نے اسلام آباد کے ایک سرکاری بندے سے 15000 ڈالر کے عوض حاصل کی ہے۔ اس اینکر کا یہ بھی دعوی ہے کہ ’’ ا لجزیرہ ‘‘ کے ہاتھ یہ رپورٹ بیچنے والے ’’سرکاری بندے ‘‘ نے پہلے امریکہ کے دو اداروں کو بھی رپورٹ فروخت کرنے کی پیش کش کی تھی لیکن وہاں سے منہ مانگے دام نہ ملنے پر اس نے الجزیرہ اپنی ڈیمانڈ سے بہت کم پر رپورٹ بیچ دی۔
میاں نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں جب ایمل کانسی کو گرفتار کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا تو اس وقت امریکی اٹارنی جنرل نے حکومت امریکہ کی جانب سے ایمل کانسی کی گرفتار میں مدد دینے والوں کو بھاری رقوم دینے پر واویلا کیا اور کہا تھا کہ ’’ پاکستانی تو چند ڈالروں کے عوض اپنی ماں بہن کو فروخت کر دیتے ہیں‘‘ امریکی اٹارنی جنرل نے ہمارے اجتماعی ضمیر کی بات کی تھی لیکن ہم پاکستانیوں کو ضمیر نہیں ڈالر درکار ہوتے ہیں۔ہم امریکی ویزہ کے حصول کے لیے ’’سب کچھ ‘‘ کرنے پر تل جاتے ہیں۔دہشت گردی کی کارروائیاں اس کی واضع دلیل ہیں۔ہمارے نوجوان پیسوں کے حصول کے لیے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کانا حق خون بہانے میں کسی قسم کی کوئی عار محسوس نہیں کرتے۔
ہمارے ایک بے صحافی اور ایک بڑے اشاعتی ادارے کے مالک جن کے تجزئیے ایک ’’ چڑیا ‘‘ کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ کا کہنا ہے کہ ایبٹ آباد رپورٹ افشا کرنے والے کو ایوارڈ دینا چاہئے کیونکہ اس نے قومی خدمت سرانجام دی ہے ۔جب کہ جنرل حمید گل نے اسے پاک فوج کے خلاف پروپیگنڈا کے لیے استعمال قرار دیا ہے۔بعض لوگ اس رپورٹ کو ادھوری بھی کہتے ہیں ۔ان کا موقف ہے کہ اس رپورٹ میں اسامہ بن لادن کے خلاف امریکی آپریشن کی ذمہ داری کسی پر عائد نہیں کی گئی۔جبکہ کمیشن کے سربراہ کا کہنا ہے کہ کسی کو ذمہ دار قرار نہ دینے کا تاثر درست نہیں ہے۔کمیشن کے معزز ارکان نے تو اپنی زمہ داری نہایت احسن طریقے سے نبھا دی ہے۔
ایک حلقہ اس رپورٹ کے اصلی ہونے پر بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر رہا ہے۔ اس حلقے کا موقف ہے کہ چونکہ اس رپورٹ پر کسی کے دستخط موجود نہیں ہیں ۔اس لیے اس رپورٹ پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا
شائد اس موقف کے حامی اس حقیقت سے نا بلد ہیں کہ اس سطح کی ہائی پروفائل انکوائری رپورٹس کو جب بھی کوئی سرکاری اہلکار افشاء کرنے کی غرض سے کسی کو بیچتا ہے تو وہ اس بات کا لازمی اہتمام کرتا ہے کہ کسی کے دستخط دکھائی نہ دیں یا کسی طور بھی اس بات کا شبہ پیدا نہ ہو کہ رپورٹ کہاں سے لیک ہوئی ہے۔اور ایسی رپورٹس کو شائع یا نشر کرنے والے بھی اس بات کا دھیان رکھتے ہیں کہ ان کے سورس کی نشاندہی نہ ہو سکے۔
جس روز سے الجزیرہ نے اس رپورٹ کو نشر کیا ہے اس وقت سے ہمارا میڈیا اسی بخار میں مبتلا ہے۔ہر اینکر کی کوشش ہے کہ اس پر اپنا علم ،فلسفہ ذہانت اور سب سے زیادہ با خبر ہونے ڈھنڈورا پیٹنے اور سب اینکرز کو پیچھے چھوڑ دینے کے جنون میں ڑی بڑی انہونیاں چھوڑ رہے ہیں۔۔اب تک نشر ہونے والے تمام ٹی وی ٹاک شوز میں اس رپورٹ کی آڑ میں پاک فوج اور اسکے ذیلی ادارے آئی ایس آئی کو ہدف ملامت بنایا جا رہا ہے۔ جسکو حب الوطنی کے نام پر کسی طور بھی قابل تحسین قرار نہیں دیا جا سکتا۔
حکومت اس بے اعتباری رپورٹ کے باعث عوام میں پائے جانے والے شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے فوری ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ کو سرکاری سطح پر منظر عام پر لائے ورنہ حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ کی طرح یہ بھی موضع بحث بنی رہے گی۔اور پاک فوج کے بدخواہ اس کی آڑ میں زہریلا پروپیگنڈا کرکے عوام کو گمراہ کرتے رہیں گے۔ ان اینکرز اور لبرل دانشورو ں اور تجزیہ نگاروں کو برحال اس بات کو ذہن نشین رکھنا چاہئے کہ پاکستان اور اسکی افواج ہماری اپنی ہیں۔انہیں غیروں کی خواہش پر کمزور کرنے کی روش لائق تحسین نہیں ہے۔اسکی وجہ یہ ہے کہ اپنے ہی گھر کو تباہی کی جانب لیجانے کی کوئی ذی شعور انسان حمایت نہیں کر سکتا۔  note

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button