تازہ ترینکالم

ضلع قصور میں ہی بچوں سے زیادتی واقعات کیوں؟

تحریر شہزاد رحمت
قصور میں کمسن بچوں سے زیادتی اور ہراسمنٹ کیسز کی وجہ سے یہ ضلع کئی بار میڈیا کی شہہ سرخیوں کی زینت بن چکا ہے، جس کے بعد سیکیورٹی اداروں کو ایسے متحرک ہوتا دیکھا کہ شاید اب یہ واقعات رونما ناہوں مگر کچھ ہی ماہ میں پھر سے تمام معاملات روٹین پر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بچوں سے زیادتی کے نا رکنے والے واقعات کا سلسلہ بتدریج جاری ہے، قصور میں ہونے والے واقعات کی وجہ سے پوری دنیا میں پاکستان کا امیج خراب ہوا دنیا بھر کی این جی اویز اور اداروں نے یہاں کے واقعات کو رپورٹ کیا ان تمام تر معاملات کے بعد کہا گیا کہ اب پولیس بہترین کام کرے گی لیکن یہ سبھی باتیں دعووں کی حد تک ہی رہیں،آخر کیا وجہ ہے کہ ضلع قصور میں ہی بچوں سے زیادتی واقعات کیوں ہورہے ہیںقصور پولیس ذرائع کے مطابق سال 2020 میں کمسن بچوں کے ساتھ ضلع قصور میں 205 زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے، سال 2021 میں کمسن بچوں سے زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا اور 246 کیسسز سامنے آئے، جبکہ سال 2022 میں زیادتی کے 163 واقعات رپورٹ ہوئے اور یہ تمام واقعات 15 سال کی عمر تک کے بچوں کے ساتھ پیش آئے،ہم نے ڈاکٹر وقاص اے خان جو کہ ماہر تعلیم, قانون دان اور ہزارہ پبلک سکول اینڈ کالج چھانگا مانگا، جمبر کے سی ای او بھی ہیں. ان سے بات چیت کی قصور میں بچوں سے زیادتی کے ماضی میں پیش آئے واقعات پر انکی گہری نظر رہی، ان کا کہنا ہے کہ ایسے برے لوگ ہر دور میں معاشرے کا حصہ رہے ہیں میرے بچپن میں بھی ایسے لوگ موجود تھے، جو اپنے سے کم عمر بچوں کو دوست بنا کر ہراساں کرتے، لیکن چونکہ یہ معاملہ اب میڈیا کی بدولت عوام، حکام بالا اور اداروں تک پہنچ رہا ہے اس لیے یہ سمجھا جاتا ہے کہ شاید اس دور میں واقعات بڑھ گئے انہوں نے بتایا کہ میرے پاس سٹوڈنٹس یا پھر انکے والدین کی طرف سے بچوں کو ہراساں کرنے کا کوئی نا کوئی واقعہ رپورٹ ہوتا ہے، اور میں نے نوٹ کیا کہ زیادہ تر 6th کلاس سے لے کر 10th کلاس کے سٹوڈنٹس کی شکایات موصول ہوئیں جس پر ہم ہراساں کرنے والے بچوں کے والدین کو بلوا کر انہیں وارننگ دیتے ہیں اور بچے کو کسی نا کسی طرح سے شرمندہ کرکے اسے احساس دلوایا جاتا ہے کہ اس نے غلط کام کیا، اس کے علاؤہ ہم بچوں اور والدین کے لیے اکثر سیمینار کا انعقاد کرتے رہتے ہیں کہ بچوں کے دوست بن کر رہیں تاکہ بچے اپنے ساتھ ہونے والے کسی بھی واقعے کو فوراً آپ سے ڈسکس کریں، ان کا کہنا ہے کہ قصور میں پیش آئے واقعات دو طرح کے ہیں ایک تو حسین خان والا قصور کا ویڈیو اسیکنڈل جو 2015 میں سامنے آیا اور یہ واقعہ انتقامی تھا جس کا مقصد ویڈیوز بنا کر ایک دوسرے کو نیچا دیکھانا تھا اور ایسے متعدد انتقامی واقعات قصور میں رپورٹ ہوچکے ہیں جب کچھ واقعات معاشرے میں موجود برے افراد کی وجہ سے پیش آرہے ہیں اور ایسے درندے نما لوگ ہر شہر اور گاوں میں رہائش پذیر ہیں جو بچوں کو اپنی ہوس کا نشانہ بنانے کےلیے ان سے دوستی کرتے ہیں اور پھر زیادتی کا نشانہ بناتے ہیں،، اویرنس سیمینار اور آگاہی مہم کا ہر تھانے، محلے اور مسجد کی سطح اور خاص طور پر جمعتہ المبارک کے خطابات کے ذریعے لوگوں کو آگاہی دی جانی چاہیے، افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں جب بھی کوئی واقعہ رونما ہوتا ہے تو پولیس صرف فائرفائیٹنگ کا کام کرتی ہے، اور ملزم پکڑے جانے کو ہی بڑی کامیابی قرار دے کر آئندہ کےلیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی جاتی جو کہ قصور بھر اور دیگر اضلاع میں آئے روز واقعات رپورٹ ہونے اور اضافے کا سبب ہے،،

واقعات کی روک تھام کےلیے لوگ تو چائلڈ پروٹیکشن کے ساتھ تعاون کررہے ہیں مگر چائلڈ پروٹیکشن ایسے لوگوں کو تحفظ فراہم کرنے کےلیے کوئی اقدامات نہیں اٹھاتا، نومبر 2018 کو پتوکی کے مقامی جرنلسٹ مقدر حسین کو انفارمیشن ملتی ہے کہ پتوکی کے ریڈ لائٹ ایریا پرانی منڈی میں نوعمر بچیوں کی خرید و فروخت کی گئی ہے جس پر انہوں نے واقعہ کی تصدیق کی اور اسکے بعد مقامی پولیس اور محکمہ چائلڈ پروٹیکشن کی مشترکہ کاروائی سے خریدی گئیں 2 نوعمر بچیوں کو برآمد کر لیا گیا، جبکہ دوران آپریشن ایک ملزم ایک کمسن بچی کو لے کر موقع سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گیا، اس آپریشن میں پولیس نے 3 خواتین کو حراست میں لے لیا جن سے تفتیش کرنے پر انکشاف ہوا کہ ان سے برآمد ہونے والی 3سالہ سیرت کو اسکے والدین سے 80 ہزار روپے میں خریدا گیا ملزمہ نے بتایا کہ والدین کی 8 بیٹیاں تھیں اور ایک بیٹی انہوں نے ہمیں فروخت کردی جبکہ دوسری 13 سالہ بچی کو کسی اغواء کار پارٹی سے 50ہزار روپے کے عوض خریدا گیا اور جوان ہونے پر ان بچیوں سے جسم فروشی کا مکرو دھندہ کروایا جانا تھا، یہ انتہائی اہم اور کامیاب کاروائی تھی ریڈلائٹ سے برآمد دونوں بچیوں کو محکمہ چائلڈ پروٹیکشن نے اپنی تحویل میں لے لیا اور گرفتار خواتین کے خلاف مقدمہ درج کرلیاگیا، یہاں یہ بات اہم ہے کہ مقدمے کا گواہ چائلڈ پروٹیکشن ٹیم نے مقدر حسین کو بنا دیا،
مقدر نے بتایا کہ اس واقعہ کو 5سال ہونے کو ہیں اور اسے جب بھی گواہی کےلیے بلوایا گیا وہ ڈسڑکٹ کورٹ جاکر عدالت کو تمام تر شہادتیں اور ثبوت فراہم کرتا رہا اس کا کہنا ہے کہ اس دوران مجھے شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا ملزمان نے مجھے کیس سے پیچھے ہٹنے کےلیے پیسوں کی آفرز کروائیں اور جب ان کا کوئی حربہ کام نا کیا تو مجھے دھمکیاں ملنا شروع ہوگئے مجھے سختی سے کیس سے دستبردار ہونے کا کہا جانے لگا، لیکن میں ظلم کے خلاف چائلڈ پروٹیکشن کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا تھا لیکن افسوس اس بات کا کہ مجھے ملنی والی دھمکیوں پر چائلڈ پروٹیکشن نے کوئی ایکشن نہیں لیا، جس محکمے نے اسے منطقی انجام تک پہنچانا تھا انہیں میری کوئی فکر نہیں تھی، حالانکہ ہونا یہ چاہیے کہ سرکاری ادارے جن کے ساتھ ہم کھڑے ہوتے ہیں وہ ہمیں پروٹیکشن فراہم کریں ان کا کہنا تھا کہ اگر چائلڈ پروٹیکشن نے حقیقتاً بچوں کےلیے کچھ کرنا ہے تو پھر انہیں مزید مضبوط ہونا پڑے گا،ایسے واقعات میں چائلڈ پروٹیکشن کی کیا ذمہ داری بنتی ہے یہ جاننے کےلیے ہم نے جب چائلڈ پروٹیکشن قصور کے آفس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو لوگوں کی ہیلپ کے لیے دیا گیا نمبر 4دن تک ڈائل کرتے رہے مگر افسوس کہ لوگوں کو ہیلپ کےلیے دیا جانے والا موبائل نمبر 03088830006 اٹھایا ہی نہیں گیا جس پر مجھے تشویش ہوئی کہ جو نمبر اٹینڈ ہی نہیں کیا جارہا وہ قصور کے لوگوں کو ایمرجنسی کے دوران کس طرح سے مدد فراہم کرے گا،قصور میں بچوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی اور قتل کے دیگر ایسے واقعات ہیں جن کے ملزمان ابھی تک تلاش نہیں کیے جاسکے اور ایسا ہی ایک واقعہ تحصیل پتوکی کے علاقہ پھولنگر میں پیش آیا جس کے ملزمان 5ماہ گزرنے کے باوجود گرفتار نہیں ہوسکے،، پھولنگر کے محلہ کوٹ کھڑک سنگھ میں 15جنوری 2023 کو 7سالہ ایمان فاطمہ گھر سے لاپتا پائی جاتی ہے بچی کے ورثاء نے کافی تلاش کی مگر اس کا کوئی پتا نا چل سکا جس کے بعد بچی کے والد محمد شہباز نے تھانہ سٹی پھولنگر میں درخواست دی کہ میری بیٹی گزشتہ روز سے لاپتا ہے اور عزیز رشتہ داروں سے بھی معلومات حاصل کرلی مگر اس کا کہیں بھی پتا نہیں چل سکا جس کے بعد پولیس نے 16جنوری 2023 کو مقدمہ درج کرکے بچی کی تلاش شروع کردی معاملہ میڈیا میں آنے کے بعد ڈی پی او قصور نے نوٹس لیا اور موقع پر پہنچ کر واقع کی تفتیش کرتے ہیں جس کے بعد ڈی پی او قصور نے دیگر تھانوں کے سینئر افسران کو بلوا کر ان سے میٹنگ کی اور روزانہ کی بنیاد پر رپورٹ لی جانے لگی، والدہ رخسانہ بی بی نے بتایا کہ میری بیٹی پہلی کلاس کی سٹوڈنٹ تھی اور وہ دوپہر 2بجے کے بعد گھر سے کھیلنے کی غرض سے باہر نکلی، بچی کی نانی نے بتایا کہ بچی ہر روز گھر کے پاس کھیلتی تھی جس وجہ سے بے فکر تھے، لیکن جب ایمان فاطمہ جب 4بجے تک گھر واپس نہیں آئی تو ہمیں پریشانی لاحق ہوئی اور اسے تلاش کرنا شروع کردیا ہمسایوں سمیت ارد گرد تمام گھروں سے معلوم کرلیا لیکن کوئی خیر خبر ناملی جس سے ہم مزید پریشان ہوگئے، پولیس نے ورثاء سے تمام تر معلومات لینے کے بعد لاپتا بچی کے گھر کے آس پاس موجود دیگر پڑوسیوں سے معاملے کی تفتیش کرتی ہے, جب بچی کا کوئی سراغ نہیں ملتا تو ڈی پی او قصور نے تفتیش کا دائرہ کار بڑھاکر تفتیش کار ٹیمیں تشکیل دے دیں اور سبھی کو مختلف ٹاسک دیا جاتا ہے، جبکہ دوسری جانب ایمان فاطمہ کی ماں باپ کی تڑپ کا اندازہ لگانا مشکل ہے کہ وہ بیٹی سے ملنے کےلیے کس قدر تڑپ رہے ہیں، اور اندر ہی اندر ایمان فاطمہ کا ناملنا انہیں گھن کی طرح کھائے جارہا تھا کہ ناجانے بیٹی کس حال میں ہوگی، آخر کار یکم فروری 2023 کو پولیس کو اطلاع ملتی ہے کہ پھولنگر کے قریبی کھیتوں سے گزرنے والے سیوریج کے نالے میں بوری بند لاش ملی ہے، جو کہ پانی میں پڑے رہنے کی وجہ سے گل سڑ چکی تھی اور اس کی شناخت نہیں ہو پارہی، اطلاع ملتے ہی مقامی پولیس موقع پر پہنچتی ہے اور یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح وائرل ہوجاتی ہے، پولیس بوری بند لاش کو کھول کر اس کا جائزہ لیتی ہے اور پھر ایمان فاطمہ کے ورثاء کو اطلاع دی جاتی ہے اور موقع پر بلوایا جاتا ہے، والد شہباز بھی دل ہی دل میں دعائیں مانگتا جا رہا ہے کہ خدایا یہ میری بیٹی نا ہو موقع پر پہنچ کر والد بار بار لاش کو دیکھتا ہے اور دھاڑیں مار کر رونا شروع کر دیتا ہے کہ یہ میری ہی بیٹی ہے، لاش کی حالت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے شناخت ناممکن ہوچکی تھی جس وجہ سے اہل محلہ بھی نہیں پہچان سکے ، شہباز نے پولیس اور میڈیا کو بتایا کہ جس دن میری بیٹی لاپتا ہوئی اس نے اورنج رنگ کے کپڑے پہن رکھے تھے اور میں نے بیٹی کو اسکے لباس سے شناخت کیا ہے، جبکہ دوسری طرف پولیس افسران بھی موقع پر پہنچ جاتے ہیں اور فرانزک ٹیموں کو بھی طلب کرکے معاملے کی ہر اینگل سے تفتیش شروع کردی جاتی ہے، جبکہ ریجنل پولیس آفیسر نے بھی واقعہ کا نوٹس لے لیا، جس کے بعد تفتیش کار ٹیمیں تشکیل دی گئیں جو ملزمان کا کھوج لگانے میں سرگرم رہیں لیکن اس کیس کو 5 ماہ ہوچکے مگر ابھی تک ملزمان حراست میں نہیں آسکے، بیٹی کو کھو دینے کی پریشانی اور اس کے کیس کی مصروفیت کی وجہ سے محمد شہباز اپنے کام کاج پر نا جا سکا جس وجہ سے اسکے گھر میں فاقوں کی نوبت آپہنچی، معاملہ انکی سمجھ سے بالاتر ہے کہ بیٹی کے ملزمان ڈھونڈیں یا پھر پیٹ پالیں، بچی کے نانا کا کہنا ہے کہ اب پولیس ان سے تعاون نہیں کررہی اس نے بتایا کہ ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ میری پوتی کو زیادتی کرنے کے بعد اس پر شدید تشدد کرکے اسے قتل کیا گیا بچی کی جب لاش ملی تو اس کے گلے میں موبائل چارجر کی تار موجود پائی گئی جس سے بچی کا گلہ دبایا گیا، ان کا کہنا ہے کہ ہمیں لگتا ہے کہ بچی نے ملزم کو پہچان لیا جسکے بعد اسے تشدد کرکے قتل کردیا گیا،

آخر قصور میں ہی یہ واقعات کیوں ہورہے ہیں اور پولیس انہیں کیوں نہیں روک پارہی، جواب جاننے کے لیے ہم نے آر پی او شیخوپورہ سے بات چیت کی جن کا کہنا تھا کہ ایسے واقعات ہر شہر میں ہی رپورٹ ہورہے ہیں مگر بار بار قصور ذرائع ابلاغ پر آنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی ہائی لائٹ ہوچکا ہے، جس بنا پر ایسا لگتا ہے کہ یہ واقعات صرف قصور میں ہی ہورہے ہیں ان کا کہنا تھا کہ پولیس ہر حوالے سے معاملے کو دیکھ رہی ہے ہماری ٹیمیں اس پر کام جاری رکھے ہوئے ہیں اور جلد ملزمان تک پہنچ جائیں گے، دوسری طرف پھولنگر کے مقامی صحافی اشرف طاہر نے مقامی پولیس سے اس کیس میں درپیش رکاوٹوں کے حوالے سے جاننا چاہا تو تفتیشی افسر نے بتایا کہ کوٹ کھاڑک سنگھ میں زیادہ تر رہائشی لوگ مقامی نہیں ہیں یہ فیکٹریوں میں کام کرنے والے ہیں اور کرائے کے مکان پر ٹھہرے ہوئے ہیں، جس وجہ سے پولیس کو ملزم تک پہنچنے میں مشکل درپیش ہے،

آخر کس طرح سے ان واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے اور کن قانونی اصلاحات کی ضرورت ہے اس حوالے سے زینب شہید کے والد حاجی محمد امین نے ہم سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ زینب الرٹ بل پر مارچ 2020 میں صدر پاکستان نے دستخط کرکے اسے قانون بنا دیا ، زینب الرٹ ریکوری ایجنسی کا مقصد یہ ہے کہ جیسے ہی کوئی بچہ لاپتا ہوتا ہے تو پولیس فوری معاملے کی چھان بین کرکے 2گھنٹے میں ایف آئی آر درج کرے گی اور اگر تھانے کا ایس ایچ او اس میں غفلت اور لاپرواہی برتتا ہے تو اسے ایک سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ کی سزاء ہوسکتی ہے، لیکن افسوس اس بات پر ہے کہ اس قانون پر عملدرآمد ہی نہیں ہوپارہا، انکا کہنا ہے کہ زینب بیٹی کے واقعہ سے پہلے اور بعد میں زیادتی کیس میں ملوث کسی بھی ملزم کو سزاء نہیں ملی، بچوں سے زیادتی کرنے والوں پر 376 اور 377 کی دفعہ لگتی ہے جس میں ملزم کی ضمانت نہیں ہوسکتی لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ہمارا تفتیشی نظام ہی اتنا کرپٹ ہے کہ دفعات کمزور شامل کرنے کی وجہ سے ملزمان آزاد گھوم رہے ہیں، اور اگر عدالت سے ملزمان کو سزاء ہو بھی جائے تو اس پر عملدرآمد نہیں ہوپارہا جس سے لوگوں میں سزاء کا خوف نہیں رہا اور واقعات میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے، اس کے علاؤہ جب تک کوئی اتھارٹی واقعہ کا نوٹس نا لے اور کیس ہائی پروفائل نا ہو تب تک پولیس حرکت میں آتی ہی نہیں ہے محمد امین انصاری کا کہنا ہے کہ شریعت کے مطابق زیادتی کرنے والے ملزم سے صلح اور معافی کا تصور ہی نہیں ہے، 18ویں ترمیم کے بعد تمام صوبے خود مختار ہیں اور حکومت پنجاب کو چاہیے کہ ایسے ملزمان کےلیے قانون پاس کیا جائے کہ ایک ہفتے کہ اندر اندر ان کی سزاؤں پر عملدرآمد ہو تاکہ بچوں کے ساتھ ہونے والے واقعات کی روک تھام ممکن ہو سکے

آخر کیس کو کیسے مظبوط بنایا جاسکتا ہے کہ ملزم سزاء سے نا بچ سکے اس کےلیے ضلع قصور کے سینئر ایڈووکیٹ محمد افضل انصاری کا کہنا ہے کہ بچوں سے زیادتی کے کیس میں دفعہ
376 اور 377 ہی لگتی ہے لیکن ملزم کے ریلیف لینے کی وجہ یہ ہے کہ جو اہلکار ان واقعات کی تفتیش کررہے ہوتے ہیں وہ تربیت یافتہ ہی نہیں ہوتے جس وجہ سے ملزمان مختلف معاملات میں ریلیف لے جاتے ہیں مثال کے طور جسے ہی کوئی واقعہ رپورٹ ہو تو متاثرہ کا فوری ڈی این اے ہونا چاہیے، لیکن پولیس کی نااہلی کی وجہ سے جتنا وقت زیادہ گزرتا جاتا ہے شواہد کمزور ہوجاتے ہیں اسی طرح پولیس کی توجہ نا ہونیکی وجہ سے ملزم ساز باز ہوکر میڈیکل رپوٹ میں ریلیف لے جاتا ہے، اور اکثر اوقات مدعی پارٹی کو درست گائیڈنس نا ہونیکی وجہ سے درج ہونے والی ایف آئی آر میں کمزور مندرجات شامل ہونے سے بھی ملزم کو عدالت سے ریلیف مل جاتا ہے انکا کہنا ہے کہ چند سال کےلیے ضلع قصور کے مختلف تھانوں میں بچوں سے زیادتی کے کیس کو دیکھنے کےلیے ٹرینڈ اہلکاروں کو تعینات کیا گیا جن کی ڈیوٹی اسپیشل ڈیسک سے ختم کردی گئی تھی، انکا کہنا کہ جتنا کیس لمبا ہوتا اتنا ہی ملزم کو فایدہ ملتا متاثرین کو انصافی کی فراہمی کےلیے ریاست کو کردار ادا کرنا ہوگا، یہ واقعات پھر ہی تھم سکتے ہیں جب بچوں سے زیادتی کیسوں کے جلد فیصلے کیے جائیں گے ان واقعات کی تفتیش کرنے والے اہلکار خود ٹرینڈ ہونگے جو ڈی این اے، میڈیکل اور فوری دیگر شواہد کو اکٹھے کرکے معاملے کی تفتیش کریں تو یقیناً ملزم جلد قانون کے شکنجے میں آئے گا اور سزا سے بھی نہیں بچ سکے گا،

Related Articles

Back to top button