تازہ ترینکالممسز جمشد خاکوانی

آزادی ء اظہار کے دیوانوں سے ایک سوال !

اپنی سوچ دبا کر رکھنے سے بڑی غلامی کیا ہے ؟mrs.
آزادیء اظہار کے اس کے علاوہ کیا معنی ہیں کہ وہ کہنے کی آزادی ہو جو لوگ سننا نہیں چاہتے؟
جو بھی کسی قوم کو غلام بنانا چاہے اسے ابتدا آزادیء اظہار چھیننے سے کرنی چاہیے !
مجھے کسی بھی آزادی سے پہلے آزادیء ضمیر چاہیئے (جان ملٹن)
سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہونگی کہ ، وسعت اللہ خان چونکہ BBCجیسے عظیم ادارے میں کام کرتے ہیں اس لیئے ان کو کچھ بھی کہنا سورج کو چراغ دکھانے والی بات ہے ۔اور میری تو ویسے بھی صحافت کی دنیا میں کوئی حیثیت نہیں ۔لیکن میں کیوں نہ وہ کہوں جو ان کو کوئی اور نہیں کہہ سکتا ۔ایک مسلمان جب اپنے نبی کے فرمان اور قران پاک کے احکامات بھلا کر دوسروں کے افکار و نظریات پہ عمل کرتا ہے یا ان پہ فخر کرتا ہے تو میرے خیال میں وہ خود ذہنی غلامی کا شکار ہے ۔اور یہ اپنی سوچ دبا کر رکھنے سے بھی بڑی غلامی ہے ۔پتہ نہیں آج کل کے صحافیوں کو یہ احساس کس نے دلایا ہے کہ اگر تم وہ سب کچھ کہہ نہیں دو گے جو تمھاری قوم کا نقصان ہے تو تمھاری صحافتی آزادی کو خطرہ لا حق ہو جائے گا ،یا پھر کچھ بھی نہ کہا اور کہہ بھی گئے ،کہ ممدوح کا نقصان نہ ہو اور بات بھی لوگوں تک پہنچ جائے بہت اچھی بات تھی اگر یہ سارے کام سچ کے لیئے کیے جاتے ،بد دیانتی سے نہیں ۔۔۔
جان ملٹن نے صحیح کہا ہے کہ مجھے کسی بھی آزادی سے پہلے ضمیر کی آزادی چاہیے۔یہی سوال مجھے صحافی برادری سے کرنا ہے ۔کہ آزادیء اظہار واقعی بہت ضروری ہے لیکن آپ کا ضمیر کہاں مطمعن ہوتا ہے یہ زیادہ اہم ہے کیا آپ اپنے بچے کو یہ آزادی دے سکتے ہیں کہ وہ جب چاہے بلا وجہ آپکے منہ پر تھپڑ مار دے ؟اگر آزادیء اظہار کے نام پر آپ وہ تھپڑ برداشت کر لیں گے تو بھی آپ کا منہ ضرور سُوجے گا ،آنکھوں میں آنسو بھی آئیں گے چوٹ نہیں وہ احساس رلائے گا کہ اپنے بچے نے ماراساری بات ہی احساس کی ہوتی ہے آپ لاکھ واویلا کریں کہ جیو کو بند کر کے آزادیء اظہار کا گلہ گھونٹا جا رہا ہے اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلا سکتا کہ جیو قوم کو تقسیم کر رہا تھا ۔جیو ایک عہد بد تھا اور ہے جس نے دو قومی نظریے کو دفن کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ،ہر روایت کو پامال کیا ،ہر رشتے کو مذاق بنا دیا،تمیز و تہذیب کا بیڑا غرق کیا ،اور آخر میں ملک کے دفاع ہر حملہ آور ہوا ، پھر بھی دل ٹھنڈا نہ ہوا تو کائنات کی سب سے عظیم ہستی کی توہین پر اُتر آیا خانوادہ رسول کی شان میں اس قدر گستاخی ۔۔۔کیا پھر بھی اللہ کا قانون حرکت میں نہ آتا ؟
آپ کہتے ہو مقدس گائے کو چھیڑ دیا ۔فوج مقدس گائے نہ سہی اس ملک کی نظریاتی سرحدوں کی امین تو ہے جب بھی اس قوم پہ کوئی وقت پڑا کس نے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیئے ؟
ایک بات کا جواب دو بھائیو! یہ سرحدیں ،آئین ، قانون کس لیئے ہوتا ہے ؟ انسانیت کی ترقی اور ترتیب کے لیئییہ کہاں کا انصاف ہے امریکہ برطانیہ ،تو اپنے قوانین کی پاسداری کے لیئے دوسرے ملکوں کے قانون کو جوتے کی نوک پہ رکھیں اور اگر کوئی غریب ملک خصوساً پاکستان اپنی بقا کے لیے کوئی قانون بنائے کوئی قدم اٹھائے تو آزادیء اظہار خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔حالانکہ جتنی آزادی ہمارے ملک میں ہے اتنی تو دنیا کے کسی ملک میں نہیں ۔دوسرے ملکوں مین قطار توڑو ،سڑکوں پہ گند پھینکو،لال بتی پہ گاڑی نکالو ،اپنے ہی بچوں کو مار کے دکھاؤ،ہسپتالوں کے آگے ہارن بجاؤ ،رشوت دے کے فائل آگے بڑھاؤ،نہیں کر سکتے نا ؟ یہ سارے کام اس ملک میں آسانی سے ہوتے ہیں حتیٰ کہ کوئی بھی چار پیسے دے کر اس ملک کی شہریت حاصل کر لیتا ہے ۔ہمارے ہی شہریوں کو گولیاں مار کے ہم سے ہی دیت دلوا کر نکل جاتا ہے ۔ہمارے تھانوں میں بیٹھ کے ہماری ہی پولیس کو دھمکاتا ہے ،تب ان کو آزادیء اظہار کا مطلب بھی بھول جاتا ہے ۔ہاں ہمارا ایک ہی فخر تھا ایک واحد ادارہ بچا تھا جس پہ یہ ہاتھ نہیں ڈال سکتے تھے ،اس کو کریش کرنے کے لیئے نائن الیون کرایا گیا،اسی کو آئین کی زنجیر ڈالنے کے لیئے افتخار چودھری کو لایا گیا ،اسی کو بدنام کرنے کے لیئے ’’جیو ‘‘ بنایا گیا اور اس جیو کے ذریعے امن تماشہ لگایا گیا اور اس امن تماشے کی کوکھ سے ’’میمو ‘‘ برامد ہوا ،کس ملک کا سفیر اپنے ملک کی افواج اور اپنے ملک کی خفیہ ایجنسی کو کنٹرول کرنے کی دعوت دیتا ہے ؟ کس ملک کا میڈیا چینل خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی اشتہاری مجرم کی طرح تصویر لگا کر اس کو قتل کے مجرم کی طرح پیش کرتا ہے ؟ ہے کوئی مثال ؟ بھارت میں پتا بھی کھڑکے تو الزام پاکستان پر لگایا جاتا ہے ،یہاں ہمارے ایئر پورٹس پر درجنوں لوگ حملہ آور ہو جاتے ہیں ہماری سیکورٹی فورسز جان کے نذرانے دے کر وطن کے اثاچے بچاتی ہے ہمیں جرات نہیں ہوتی کہ ہم پڑوسی ملک کا نام لیں سارے ثبوتوں کے باوجود ،کیونکہ ہمارا اپنا وزیراعظم ان کے دفاع پر کمربستہ ہے دوسری طرف ہمارا اپنا ڈیفنس منسٹر اپنی ہی فوج کے خلاف الزامات کی ایک لمبی فہرست پیش کرتا ہے آپ ہی بتائیے اس سے زیادہ آزادیء اظہار بھلا کس کو نصیب ہے ۔اب بھی گلہ ہے کہ فوج وفادار نہیں۔۔۔۔چلیئے اس بات کوایک اور زاویے سے دیکھتے ہیں ۔اگر دنیا میں صرف آزادیء اظہار ہی سب کچھ تھا یعنی اپنی مرضی سے جینا ،اپنی مرضی سے بولنا وغیرہ وغیرہ،تو پھر تہزیب و تمدن کا کھڑاگ کیسا؟آئین و قانون کی پاسداری کس لیئے ؟جس کی جو مرضی کرے ،چادر وچار دیواری کیسی جس کی جہاں مرضی رہے ،رشتے اور رشتہ داری کیسی جس سے چاہو رشتہ بنا لو ،اللہ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ اس لیئے دیا کہ قائدے قانون کا پابند ہو ،ماں جیسی ہستی کیوں تخلیق کی ؟ چاھتا تو بچے آسمان سے ٹپا ٹپ گرتے نو ماہ ماں کے پیٹ میں بچہ کیوں رکھا ؟ کہ بچے کا بوجھ اٹھائے صبر کرنا سیکھے ،تربیت کرے اسے بتائے کہاں بولنا ہے کہاں چُپ رہنا ہے ،کونسی چیز اس کی ہے کونسی دوسرے کی ہے کس کی عزت کرنی ہے کس کا اعتبار کرنا ہے ،کس حد سے آگے جانا منع ہے ۔
ورنہ کتے بلی کے بچے بھی پل جاتے ہیں ،انسان کے لیے ہی ایک لاکھ ستر ہزار نبی اور رسول کیوں آئے ؟ انسان کے لیئے ہی کتابیں کیوں اتاری گئیں ؟وہ ہر دل میں خود ہی تمیز و تہذیب کی پنیری لگا دیتا ،پچھلی امتوں کی نافرمانیاں کیوں یاد کرائیں کہ ان سے سبق سیکھو اور اپنی حدوں سے باہر نہ نکلو ۔ کیا جیو اپنی حد سے باہر نہیں ہو گیا تھا ؟پاکستان میں ایک گورنر قتل کر دیا جاتا ہے کہ اس پہ توہین رسالت کا الزام تھا کیا جیو نے توہین اہل بیت نہیں کی ؟پھر اس کو صرف دفاعی ادارے کی توہین کا زمہ دار قرار دے کر جرم کی سنگینی کو کم کرنا بجائے خود ایک جرم ہے
جیو ایک فریق بن چکا تھا آئی ایس آئی اور فوج کو دیوار سے لگانے کے عمل میں اس نے ہر حد کراس کر لی ۔جب اللہ کسی قوم کو زلیل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیئے اسباب بھی پیدا کر دیتا ہے ۔جیو نے قوم کو آزادی اظہار کے نام پر جہالت سے تو کیا نکالنا تھا اپنے ہی اداروں کے خلاف کھڑا کر کے بے اعتباری کی اس منزل پر پہنچا دیا کہ اب وہ ذہنی مریض بن چکے ہیں ،کس پے کریں اعتبار ہم ؟حکومت کرپٹ ،وزیر مشیر دھشت گرد ،فوج مجرم آئی ایس آئی قاتل یہ تربیت کی ہے میڈیا کی آزادی نے ،جو کرنے کے کام تھے وہ تو کئے نہیں ،جس طرح بھٹو نے روٹی کپڑا مکان کا خواب دکھا کر قناعت سے بھی غریب کو محروم کر دیا اسی طرح میڈیا نے غریبوں کو اللہ کی مدد سے دور کر دیا ۔اپنی حکومت پہ تنقید کرنا اور بات ہوتی ہے دفاعی اداروں اور نبی کی حرمت پہ حملہ کرنا اور بات ہے حکومت جو آپکے دیئے ٹیکسوں پہ عیش کررہی ہے اس کا گریبان پکڑنا آپ کا حق ہے ،ادارے حکومتوں کے ما تحت ہوتے ہیں وہ نہ تو آپ سے ووٹ لینے آتے ہیں نہ ہی دفاعی ادارے سڑکوں پر احتجاج کے لیئے نکلتے ہیں انہیں اگر عوام عزت اور محبت نہ دے تو وہ کیوں اپنی جان دیں گے ؟
آپ انہیں پہلے تو ہر معاملے سے الگ کر دیں اور جب کوئی آپکا گھر لُوٹ کے چلا جائے تو الزام انہیں کو دیں دفاعی ادارے کمزور ہیں ،اداروں کو چلانا حکومتوں کا کام ہوتا ہے اور انہیں مضبوط کرتی ہے عوام کی محبت ۔۔۔یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے اپنے ہی ادارے کے خلاف دوسرے ملکوں سے مدد مانگی جاتی ہے ملکی دفاع کو توڑنے کی دعوت دی جاتی ہے اور جب وہ حرکت میں آئیں تو اسے بغاوت کہا جاتا ہے دنیا ہم پر ہنستی ہے کہ نا اہل لوگ اس قوم پہ حکومت کرتے ہیں تو اس ملک کی سیاست میں جہاں اپنی مرضی سے کوئی ووٹ نہیں دے سکتا وہاں آزادیء اظہار صرف جیو کو چاہیئے یا ہر اس ابن لوقت کو چاہیے جس کی من مانی کو خطرہ لا حق ہو ۔یا اس بلا وجہ کے خوف کو چاہیئے جسے پیش از مرگ واویلا کہتے ہیں ۔!

note

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button