کچھ عرصہ پہلے لاہور میں ایک تقریب کا انعقاد ہوا جس میں ٹیکنیکل بورڈ لاہور کے ٹاپ پوزیشن حاصل کرنے والے طلباء کو لیپ ٹاپ تقسیم کیے گئے۔اگرچہ اس سے لاوارث طلباء کو وارث مل گیا لیکن چیئرمین بورڈ نے جب ڈپلومہ ہولڈر طلباء کے لیے یونیورسٹی میں مختص کوٹہ سسٹم کی بات کی تومحترم حمزہ شہباز صاحب نے اپنے پاؤں پر پانی نہیں پڑنے دیا۔اور یہ کہ کر کہ” میں کوشش کروں گا لیکن جھوٹا دلاسہ نہیں دوں گا” ایک تو لوگوں کی نظر میں خود کو بااصول ثابت کرنے کی کوشش کی اور دوسرے رخ پر یہ بھی واضح کر دیا کہ یہ کام اتنا آسان نہیں۔ظاہری بات ہے کہ اتنی بڑی سیاسی پارٹی کا گدی نشیں ایسا جواب دے رہا ہے تو یہ مسئلہ اتنا سادہ نہیں ہے جتنا سمجھا جا رہا ہے ۔ورنہ یہ دلاسے اور وعدے توسیاست دان کار ثواب سمجھتے ہیں بعد میں پورے ہوں یا نہ ہوں ۔اس لیے ہمیشہ کی طرح صرف دلاسہ دیا جاسکتا تھا یا ایک خوبصورت وعدے کا محل سجایا جا سکتا تھا۔اس کے پیچھے کیا گھن چکر ہے معلوم نہیں لیکن کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے
گورنمنٹ یونیورسٹی میں تین سالہ ڈپلومہ ہولڈر کے لیے صرف ایک سیٹ ہے۔گورنمنٹ یونیورسٹی میں چونکہ فیس نجی یونیورسٹی کی نسبت کم ہوتی ہے اس لیئے ہر اچھا ایسوسی ایٹ انجینیئر (تین سالہ ڈپلومہ ہولڈر) یہ خواہش رکھتا ہے کہ اسے گورنمنٹ یونورسٹی میں داخلہ مل جائے تا کہ اسے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کا موقع ملے۔ لیکن ہر طالب علم ہمیشہ کی طرح بھول جاتا ہے کہ اس بے حس معاشرے میں کسی غریب گھرانے یا درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی لیے سنہرے مستقبل کے خواب دیکھنا بھی گناہ عظیم ہے۔انکی قابلیت بھلے ایف ۔ایس۔سی والوں سے زیادہ ہو ،بھلے ہی وہ عملی طور پر زیادہ تربیت یافتہ اور ہنر مند ہو لیکن انکو اس فرسودہ نظام اور کوٹہ سسٹم کی بھینٹ چڑھنا پڑے گا۔
یہاں ہر گز ہر گز مقصد یہ نہیں کہ ایف ایس سی پری انجینئرنگ طلباء کی توہین کی جائے یا انہیں کسی سے کم تر ثابت کیا جائے اور نہ ہی یہ کہ امیرطبقے کو تنقیدکا نشانہ بنایا جائے۔مقصدصرف یہ ہے کہ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ کسی طبقہ کے طلباء سے امتیازی سلوک نہ کیا جائے اور کسی کا استحصال یا حق تلفی نہ کی جائے۔کیونکہ طلبا غریب ،امیر ہوں یا سرکاری و غیر سرکاری ادارے کے ، ہیں تو اس ملک کا سرمایہ۔ایف ایس سی والے طلباء دونوں سال کیمسٹری،فزکس،ریاضی پڑھتے ہیں۔دوسری طرف ڈپلومہ ہولڈر دو سال کی بجائے تین سال تعلیم حاصل کرتے ہیں اور کیمسٹری،فزکس،حساب کے ساتھ ساتھ اپنی اپنی ٹیکنالوجی سے متعلقہ بائیس سے انتیس مضامین بھی پڑھتے ہیں۔کیمسٹری کا کورس ایف ایس سی جتنا بہتر نہیں لیکن ایف ایس سی میں پڑھائی جانے والی فزکس میں الیکٹریکل،الیکٹرونکس ،مکینیکل،اور سول انجنیئرنگ سے متعلق چند بنیادی نوعیت کی تھیوریز ہیں جب ک ایسوسی ایٹ انجینئر ان تمام تھیوریز کو بہت تفصیلا پڑھ چکا ہوتا ہے۔رہی بات ریاضی (میتھ) کی تو وہ ایف ایس سی میں جتنا پڑھایا جاتا ہے اتنا ڈپلومہ کے کورس میں بھی پڑھایا جاتا ہے۔ حقیقت تویہ ہے کہ جو تھیوریز اور مضامین ایف ایس سی والے طلباء انجینئرنگ میں دیکھیں گے ان تما م تھیوریز کاپچپن فیصد( 55 %) ڈپلومہ ہولڈر بڑے احسن طریقہ سے ناصرف پڑھ چکے ہوتے ہیں بلکہ پریکٹیکلی پرفارم بھی کر چکے ہوتے ہیں۔ویسے بھی اچھی یونیورسٹی میں داخلہ لینے اور نمبر حاصل کرنے کی اس ریس میں ایف ایس سی کے طلبا مضمون کو سمجھنے سے زیادہ اس کو پہلے صفحے سے آخری صفحہ تک رٹہ لگا نا مناسب سمجھتے ہیں اور اس کا زمہ دار طالب علم نہیں یہ فرسودہ نظام ہے۔اسکے برعکس فیلڈکے کام میں مہارت رکھنے کی وجہ سے ایک ڈپلومہ ہولڈر کومختلف نجی کمپنی میں روزگار کے مواقع ملتا ہے۔اور یہ انکی قابلیت ،پریکٹیکل اور تھیوری پر عبور کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اور ویسے بھی مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں جب ڈپلومہ اور انجینئر مل کے کام کرتے ہیں تویہ بات عیاں ہو جاتی ہیں کہ ایک اچھا ایسوسی ایٹ ایک انجینئر سے زیادہ پیچھے نہیں ہے۔تو پھر یہ استحصال کیوں۔
بہت سے درمیانے یا غریب طبقے کے طلباء صرف اس لیے ڈپلومہ میں داخلہ لیتے ہیں کہ انکے پاس اتنا سرمایہ نہیں ہوتا کہ وہ ایف ایس سی کے اخراجات برداشت کر سکیں۔دوسرا ڈپلومہ سے انہیں کوئی روزگار میسرآجائے گاسوچنے کی بات یہ ہے کہ جو طلباء ایف ایس سی کا خرچ برداشت کرنے سے قاصر ہیں کیا انکے لیے ممکن ہے کہ وہ نجی یونیورسٹی میں جہاں ایک سمسٹر کی فیس پچاس ہزار سے بھی زیادہ ہوتی ہے وہاں اپنے اعلی تعلیم کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکیں۔دوسری طرف گورنمنٹ یونیورسٹی ڈپلومہ ہولڈرز کے ساتھ اچھوت والا سلوک روا رکھتی ہے اور اس طرح ہر سال وطن عزیز کا بیش قیمت اور اصل سرمایہ ضائع کر دیتے ہیں۔ہر سال نہ جانے کتنے طلباء کی قابلیت اس محرومی اور حقوق کی پامالی کی وجہ سے زنگ آلود ہو جاتی ہے اور ہزاروں طلباء اس فرسودہ نظام کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ حکومت،حزب اختلاف اور میڈیا کسی کو بھی یہ استحصال نظر نہیں آتا۔اور اگر اس بارے میں بات اچھالی بھی جائے تو انکے کاموں پر جوں تک نہیں رینگتی۔پارلیمنٹ میں پچھلے پینتیس سال میں ایک ہی بار یہ موضو ع زیر بحث آیا ہے اس کے بعد وہ بھی خواب خرگوش ہو گئے۔
انجینئرز پاکستان کا لازول سرمایہ ہیں۔اور بلا شبہ ڈپلومہ ہولڈر سے بہتر ہیں ۔لیکن یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ ڈپلومہ کے بعد انجینئرنگ کسی بھی طرح ایف ایس سی کے بعدانجینئرنگ کرنے سے کم نہیں ۔پا کستان میں اقلیتوں کے لیے ہر جگہ کوٹہ مختص ہوتا ہے اگرچہ وہ بھی غلط ہے کیونکہ اقلیت یا اکثریت جو بھی ہو ہیں تو سارے پاکستانی ۔اسلیے قابلیت کو بنیاد بنانا چاہیے۔لیکن ڈپلومہ ہولڈرز نہ تو اقلیت ہیں نہ معذور ہیں نہ ہی کسی بھی صورت قابلیت یا عملی طور پر کم تر ہیں۔
ظلم بچے جن رہا ہے گلی گلی
عدل کو بھی تو صاحب اولاد ہونا چاہیے
حمزہ شہباز صاحب نے اس وقت تو اصول پسندی دکھائی جو کہ اچھی بات ہے لیکن کیا انہون نے اس کے بعد ایک بار بھی اس مسلۂ کو سلجھانے کے لیے کچھ کیا۔اگر نہیں کیا تو پھر اسی وقت ایک جھوتی تسلی دے دیتے ویسے بھی قوم جھوٹی تسلیوں پرخوشی سے گزارا کر لیتی ہے۔جناب صدر اور محترم وزیر اعظم صاحب سے گزارش ہے کہ اس استحصال کا فوری نوٹس لیں اور جنگی بنیادوں پر ڈپلومہ ہولڈر کی بہتری کے لیے کام کریں ۔کم از کم کوئی قانون ہی بنا دیں۔آپ لوگوں کو عوام منتخب کرتی ہے اپنے مسائل کے حل کے لیے،قانون سازی کے لییافسوس اس بات کا ہے کہ ااپ یہی کام نہیں کرتے۔
بات تو سچ ہے مگر ہے رسوائی کی
You must be logged in to post a comment.