تازہ ترینکالم

فوری اور سستا انصاف

shafqatجس معاشرے میں انصاف کا بول ہو وہاں معاشرتی برائیاں قریبا نہ ہونے کے برابر ہویے ہیں پاکستان میں بھی فوری انصاف کے دعوئے تو بہت کیے جاتے ہے لیکن اس نام نہاد فوری انصاف کیلیے انصاف کے متلاشی کو جس اذیت سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ ناقابل بیاں ہے مثال کے طور پر ایک شریف شہری کو غنڈہ عناصر تشدد کا نشانہ بنا کر زخمی کر دیتے ہیں اور وہ شہری انصاف کے حصول کے لیے قانون کی مددلینے کی سوچتا ہے تو اسے سستے اور فوری انصاف کے لیے جن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے ذرا ملا خطہ کریں ہو تا یہ ہے کہ شہری سب سے پہلے زخمی حالت میں متعلقہ تھانے میں جا تا ہے جہاں اسے پانچ سو روپے میں نقشہ مضروبی بنا کردیا جا تا ہے اس کے بعد جب وہ ہسپتال پہنچتا ہے اور مرہم پٹی کے ساتھ MLCکی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو دوسو روپے سرکاری فیس فورا وصول کرنے کے بعد پوچھا جاتا ہے کہMLCکس نوعیت کا چاہیے اورع ہر نوعیت کی فیس (رشوت) بتا دی جاتی ہے اگر شہری یہ کہے کہ جو حقیقی زخم ہیں ان کا ہی MLCبنا دو تب بھی اس سے کم ازکم دوہزار وصول کرلیے جاتے ہیں مرہم پٹی کروانے اور MLCحاصل کرنے کے بعد شہری عرضی نویس کو سو روپے ادا کر کے درخواست لکھواتا ہے اور تھانے کا رخ کرتا ہے تھانے پہنچ کروہاں ڈیوٹی پر موجود تھانہ انچارج کو اپنی درخواست پیش کرتا ہے تو اس شہری سے اس طرح تفتیش کی جاتی ہے کہ اسے گمان ہونے لگتا ہے کہ میں درخواست گزار نہیں بلکہ کوئی چور ڈاکو ہوں اس کے بعد درخواست کسی تفتیشی افسر کو ریفر کردی جاتی ہے جب شہری اس تفتیشی افسر سے رابطہ کرتا ہے تو اسے یہ حکم صادر فرما یا جاتا ہے کہ کل فلاں وقت تھانے آجانا اور پھر بغیر کوئی کاروائی کیے لگا تار اس مضروب شہری کے روزانہ چکر لگوائے جاتے ہیں ان چکروں سے عاجز آکر شہری کسی ایسے شخص کی تلاش میں لگ جاتا ہے جس کا تھانے میں آنا جانا ہو پھر اس شخص کے ساتھ جا کر جب تفتیشی افسر کی خدمت میں حاضر ہوتا ہے تو اسے چائے وغیرہ بھی پلائی جاتی ہے اور کاروائی کی یقین دہانی بھی کروائی جاتی ہے لیکن اس یقین دہانی کے عویض شہری کو کم از کم پانچ ہزار روپے اپنے ساتھ آنے والے شخص کی معرفت تفتیشی افسر کو ادا کرنے ہوتے ہیں ادائیگی کے بعد ایک نیا سلسلہ شروع ہو جا تا ہے FIRکی نقل حاصل کرنے کے لیے تھانہ محرر کو ہزار روپے ادا کیے جاتے ہیں ضمنی کاغذات خریدنے کے لیے مزید ایک ہزار ادا کیے جاتے ہیں ضمنی کا غذات مکمل کرنے والے لکھاری کی نذر بھی ہزار روپے کیے جاتے ہیں ان تمام نذرونیاز کے بعد درخواست گزار کی یہ ڈیوٹی لگا دی جاتی ہے کہ ملزمان کی جاسوسی کرواور جب ملزمان کہیں نظر آئیں تو تفتیشی افسر کو بذریعہ فون اطلاع کرو جب انصاف کا فریادی شہری ملزمان کی اطلاع دیتا ہے تو دو یا چار پولیس اہلکار ملزمان کو گرفتار کرنے پہنچ جاتے ہیں گرفتار کرکے ملزمان کو تھانے لایا جاتا ہے اور انعام کی مد میں دوخواست گزار سے کم ازکم ہزار روپے فی اہلکار اور پانچ سو روپے پٹرول کے وصول کیے جاتے ہیں لو جناب اب تفتیش کا عمل شروع ہو جاتا ہے اور اس عمل کے لیے تفتیشی افسر کو مزید پانچ ،دس ہزار روپے مظلوم شہری کو ادا کرنے پڑتے ہیں تھانے میں پنچائت کا وقت تفتیشی افسر کی طرف سے مقرر کر دیا جاتا ہے پنچائت میں بولنے کا فنرکھنے والے لوگوں کو ہزاروں روپے ادا کر کے درخواست گزار بڑی منت سماجت کے ساتھ لے کر آتا ہے اور یہی حال ملزم پارٹی کا بھی ہو تا ہے اب تفتیشی افسر جو کہ ملزمان سے بھی ہزاروں روپے رشوت وصول کرکے پنچائت کا منصف بنا ہوا ہوتا ہے وہ کبھی درخواست گزار کی حمایت کرتا ہے اور کبھی ملزمان کی ۔پہلی پنچایت بغیر کسی فیصلے کے ختم ہو جاتی ہے اور اگلی پنچایت کا وقت دے دیا جاتا ہے اور یہ سلسلہ بھی تین چار روز جاری رہتا ہے اب درخواست گزار کے حمایتی پنچاتئی جو کہ ان دنوں میں ملزم پارٹی سے بھی بھاری رقم وصول کرلیتے ہیں درخواست گزار کو صلح کی طرف راغب کرنے لگتے ہیں تفتیشی افسر بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں صلح کا مژورہ دیتا ہے چار ونا چار مجبور ہو کر مظلوم شہری کو صلح کرنی پڑتی ہے اور وہ آئندہ کبھی تھانے کا رخ کرنے سے ہمیشہ کے لیئے توبہ کرلیتا ہے اس طرح انتہائی سستے اور مختصر طریقے سے مظلوم شہری کی داد رسی ہوجاتی ہے اور وہ معافی اور صلح جیسی نیکیوں کا اجروثواب بھی حاصل کر لیتا ہے فرض کریں اگر شہری صلح کے لیے راضی نہیں ہوتا تو پھر اسے کچری میں جودھکے کھانے پڑتے ہیں اور خرچہ کرنا پڑتا ہے وہ مذکورہ بالا حالات سے بہت آگے ہے استغاثہ رپورٹ کمزور ہونے کی وجہ سے ملزمان ضمانت پر رہا ہو جاتے ہیں اور انصاف کے لیے لڑنے والے شہری کو پانچ ،سات سال بعد ٹوٹا پھوٹا انصاف مل ہی جاتا ہے اس تمام عمل کے دوران شہری خود کو ہی مجرم تصور کرنے لگتا ہے یہ پاکستان کا سستا ترین اور فوری انصاف ۔لیکن زیادہ تر پاکستان کے عام شہریوں کو اسی عمل سے گزرنا پڑتا ہے ۔
خدا آپکو اور مجھے ہر طرح کی آفت سے محفوظ رکھے ۔(آمین) note

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button