اطہر مسعودوانیتازہ ترینکالم
حریت کانفرنس میر واعظ کے فیصلے


حریت کانفرنس (میر واعظ) کا یہ مکمل اجلاس ایسی صورتحال میں ہوا ہے کہ جب بھارتی مقبوضہ کشمیرچند ماہ قبل کے بھیانک تباہ کن سیلاب اور اس کے بعد بھارتی حکمران بھارتی جنتا پارٹی کی سیاسی یلغار کے نتائج سے نبرد آزما ہے۔جاری بیان میںحریت کانفرنس کے اس گروپ کے اجلاس میں شریک حریت اکائیوں کے سربراہوں اور نمائندوں کا ذکر تو کیا گیا لیکن کسی کا نام ظاہر نہیں کیا گیا۔حریت کانفرنس (میر واعظ) نے اس اجلاس میں واضح طور پر مسئلہ کشمیر حل کرنے کے دو آپشن بتائے ہیں ،ایک یہ کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے یا بھارت ،پاکستان اور کشمیریوں کے بامعنی مزاکرات کے ذریعے یہ مسئلہ حل کیا جائے۔کشمیریوں سے مراد انہوں نے حریت کانفرنس کو ہی بتایا ہے۔حریت کانفرنس کے اس گروپ کے اس بیان سے حریت ہوئی کہ حریت کانفرنس جموں و کشمیر کے عوام کی سیاسی خواہشات اور امنگوں کی نمائندگی کرتی ہے۔ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ 1988ء میں شروع ہونے والی کشمیریوں کی مسلح جدوجہد آزادی کے وقت آزادی پسند رہنمائوں اور تنظیموں کی طرف سے واضح کیا گیا تھا کہ یہ ان کا سیاسی اتحاد کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی سیاسی نمائندگی کرتا ہے اور یہی بات میر واعظ عمر فاروق کے والد محترم میر واعظ مولوی محمد فاروق نے بھی بھارتی ٹی وی چینل کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں واضح کی تھی۔اب حریت کانفرنس میر واعظ عمر فاروق گروپ تمام ریاست کے عوام کی نمائندگی کا دعوی کر رہا ہے تو اسے درست قرار دینا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔اجلاس کے شرکاء کا یہ مطالبہ اہم ہے کہ حریت کانفرنس کو عوامی سطح پہ مضبوط بنایا جائے۔واقعی حریت کانفرنس کی جڑیں کشمیریوں سے منقطع نظر آتی ہیں اور ان کی کشمیریوں میں شدید متاثر ساکھ کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔لداخ اور جموں میں حریت کانفرنس (میر واعظ) کی عوامی رابطہ مہم کا کیا ردعمل سامنے آ سکتا ہے،یہ حریت کانفرنس (میر واعظ) کے رہنما خود بھی اچھی طرح جانتے ہیں۔حریت کانفرنس ( میر واعظ) کی طرف سے انڈیا کی سول سوسائٹی اور انڈین سیاسی جماعتوں سے رابطے کا فیصلہ بھی لداخ اور جموں میں عوامی مہم کی طرح حریت کانفرنس (میر واعظ) کی سوچ اور” اپروچ” کی نشاندہی کرتا ہے۔معلوم نہیں حریت کانفرنس(میر واعظ) گروپ ریاست جموں و کشمیر کے بالخصوص گزشتہ آٹھ عشروں کی تاریخ بھول گیا ہے یا انگنت تجربات اور دھوکوں کے بعد مزید ایک تجربہ کرنے کا متوالا نظر آتا ہے۔کیا انڈین ” مائینڈ سیٹ” تبدیل ہو گیا ہے یا ان حریت رہنمائوں کے ذہن بدل رہے ہیں؟
حیرت انگیز طور پر اس اجلاس میں حریت کانفرنس(گیلانی) کی طرف سے حریت تنظیموں میں اتفاق و اشتراک عمل کی کوششوں کے جواب میں کوئی بات نہیں کی گئی۔اس اجلاس میں خود کو کشمیریوں کا نمائندہ قرار دینے پر زور تو دیا گیا لیکن تحریک آزادی کشمیر کے لئے کشمیریوں کی عملی جدوجہد کا پلیٹ فارم مہیا کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی،اس بنیادی ذمہ داری سے صرف نظر کیا گیا۔ہمیں یقین ہے کہ حریت کانفرنس (میر واعظ) کی ایگزیکٹیو کونسل،جنرل کونسل اور اور ورکنگ کمیٹی کے اس اجلاس کے چند شرکاء نے اپنی سیاسی و روحانی قیادت کے احترام کے باوجود ناگواری پیدا کرنے والے سوالات ضرور کئے ہوں گے۔گزشتہ دنوں حریت کانفرنس کی ایک پرانی فہرست دیکھی تو اس میں بار ایسوسی ایشن اور جموں و کشمیر ٹریڈرز بھی شامل تھے۔یعنی محدود حد تک ہی سہی لیکن کشمیر کی سول سوسائٹی کی نمائندگی بھی موجود تھی لیکن اب حریت کانفرنس (میر واعظ) میں شامل تنظیموں اوران کے رہنمائوں کے نام بھی مخفی نظر آتے ہیں۔یا ہو سکتا ہے کہ معاملہ اس طرح کا ہو کہ” ہاتھی کے پائوں میں سب کا پائوں” کے مصداق یہی بتانا کافی ہے کہ حریت کانفرنس( میرواعظ) کی ایگزیکٹیو کونسل،جنرل کونسل اور ورکنگ کمیٹی کا اجلاس چیئر مین میر واعظ عمر فاروق کی صدارت میں منعقد ہوا۔مختصر طور پہ یہی کہا جا سکتا ہے کہ حریت کانفرنس سے متعلق کشمیریوں میں کئی اعتراضات سامنے میں آ رہے ہیں اور حریت کی کارکردگی کو بہتر بنانے کی گنجائش میں تیزی سے اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے