اسلام آباد﴿بیورو رپورٹ﴾چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا ہے کہ بلا خوف و خطر آئین و قانون کے مطابق انصاف فراہم کرتے رہیں گے۔پارلیمنٹ قانون سازی کرتی ہے اور ہم اس پر عمل درآمد کرتے ہیں۔ انصاف کی بلارکاوٹ فراہمی میں آپ کی بار کی مسلسل کوششوں کی بہت ضرورت ہے۔کوئی بھی مئورخ عدلیہ کی آزادی کے لئے آپ کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔3 نومبر 2007 کے تمام اقدامات کو غیر آئینی قرار دیا تھا مگر اسلام آباد میں ایک آئینی ہائی کورٹ وقت کی ضرورت تھی۔18ویں ترمیم کے ذریعے اسلام آباد ہائی کورٹ کے قیام پر پارلیمنٹ کو کریڈٹ پیش کرتا ہوں۔عدلیہ کی آزادی کے لئے بار کی بے خوف و خطر مدد اور تعاون ملک میںقانون اور آئین کی حکمرانی کے لئے عظیم یقین دہانی اور امید ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ کی بلڈنگ میں ہائی کورٹ بار کے نومنتخب عہدیداران کی حلف برداری تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔انہوں نے کہا کہ یہ میرے لئے باعث مسرّت ہے کہ میں اسلام آباد ہائی کورٹ بار کے نئے منتخب شدہ عہدیداران کی تقریبِ حلف برداری کی صدارت کر رہا ہوں۔ میں آپ سب کو حالیہ انتخابات میں کامیابی پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔ یہ دن اس لئے بھی اہم ہے کہ آج یہاں پر ہم سب کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہے کہ پارلیمنٹ نے اٹھارویں ترمیم کے ذریعے عدالت ِ عالیہ اسلام آباد کا قیام بھی یقینی بنایا ہے۔اگرچہ 3 نومبر 2007ئ کو ایک نام نہاد آئینی ترمیم کے ذریعے ایک ہائی کورٹ کا قیام کیا گیاتھا جو کہ ایک غیر آئینی فعل تھا لیکن سپریم کورٹ نے اپنے 31-07-2009 کے فیصلہ کے ذریعے کالعدم قراردیا اور ساتھ ہی اس بات کا اظہار کیا کہ یہاں پر اسلام آباد میں آئینی ہائی کورٹ وقت کی ضرورت ہے اور پارلیمنٹ اس سلسلے میں آئین میں ترمیم کے ذریعے اس عدالت کا قیام عمل میں لائی۔ آج کے اس استقبالیہ میں آپ کی طرف سے پُر جوش مسلمہ اظہار نے بینچ اور بار کے درمیان رشتے اور رابطوں کو ناقابل جدا اور مضبوط کر دیا ہے۔در حقیقت عدلیہ کی آزادی کے لئے بار کی بے خوف و خطر مدد اور تعاون ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی کے لئے عظیم یقین دہانی اور امید ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کا شکر ہے ہم نے اپنا سفر صحیح سمت کی طرف شروع کیا ہے۔ یہ راستہ کامیابی اور کامرانی کا ہے جو آپ کے جذبے اور انتھک کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہاں پر مجھے ایک آسٹریلوی جج کے الفاظ یاد آ رہے ہیں۔ جس نے کہا تھا کہ بار کوئی عام کام یا پیشہ نہیں ہے۔ اس نے مزید کہا کہ یہ محض خالی الفاظ نہیں ہیں ، نہ ہی ان کا مقصد پیشہ ورانہ دعوئوں کا اظہار یا حوصلہ افزائی ہے۔ اس بات کو قطعی طور پر یوں سمجھنا چاہئے کہ ایک بیرسٹر اپنے موکل کا ہمراز، مشیر اور وکیل ہوتا ہے۔ اس لئے ان کو زیادہ ایماندار اور فارنزک قابلیت کا حامل ہونا چاہئے۔معاشرے میں قانون کی خدمات جیسے اعلیٰ کام کو کامیاب بنانے کی کوشش میں وہ اپنی پرانی روایات کی بدولت ججز اور اپنے بار کے ساتھیوں کے درمیان ایک قریبی تعلق رکھتا ہے۔ یہ ایک نازک رشتہ ہے جو کہ غیر معمولی حقوق اور ذمہ داریاں رکھتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی ذمہ داریوں کو دیانت داری سے سرانجام دینے سے عروج حاصل ہوتا ہے جہاں ہمیشہ جگہ خالی ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھیں اس باعزت مقام کو پانے کیلئے کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں ۔ چونکہ آپ کا رابطہ عدالتوں ، سائلان اور عام لوگوں سے ہوتا ہے اس لئے آپ کی ذمہ داریاں بھی عدالتوں، سائلان اور عام لوگوں کے بارے میں بڑھ جاتی ہیں۔ اس ہمہ جہتی کردار میں آپ کو ضابطہ اخلاق کی پیروی کرنی ہو گی۔ انصاف کی بلارکاوٹ فراہمی میں آپ کی مسلسل کوششوں کی بہت ضرورت ہے۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ اس میں کوئی شک نہ ہے کہ نظام انصاف کو مستحکم کرنے میں بار کی حمایت ہمیشہ سے ایک لازمی جز کی سی رہی ہے۔ کوئی بھی مئورخ عدلیہ کی آزادی کے لئے آپ کی کوششوں کو نظر انداز نہیں کر سکتا ۔ قانون کی حکمرانی کیلئے عاصمہ جیلانی سے لیکر سندھ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے مقدمہ تک ، وکلائ اور بار ایسوسی ایشنز کا کردار بنیادی حیثیت کا حامل رہا ہے جو انصاف کی گاڑی کے دونوں پہیوں کی برابر اور متواتر روانی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ درست طور پر کہا جاتا ہے کہ عدالتی آزادی کیلئے ایک ادارہ جاتی انتظام و انصرام کے بغیر، کسی بھی معاشرے میں قانون کی حکمرانی ممکن نہیں۔حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کا انحصار عدالتوں پر ہوتاہے جو مجلس شوریٰ کی منشائ کا نفاذ کرتی ہیں نہ کہ اس کا ،جو انتظامیہ چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم زندگی کے کسی بھی شعبہ سے ہوں ہمیں اپنے فرائض بہترین صلاحیت، خوش اسلوبی اور جانفشانی سے سر انجام دینا ہیں ۔ ہمیں اپنے نظامِ عدل کی بہتری کیلئے چندروز قبل منعقدہ بین الاقوامی عدالتی کانفرنس کے شرکائ کی جانب سے متعدد تجاویز حاصل کرنے کا موقع ملا۔ نظامِ عدل کی بہتری کیلئے خیالات اور تجاویز کے تبادلہ کی خاطر پوری دنیا سے عدل اور دیگر شعبوں سے متعلق لوگوں کو مدعو کیا گیا۔ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہوا۔ ہم نے ہمیشہ سے نظام کی بہتری کیلئے تجاویز کو اہمیت دی ہے۔ قومی عدالتی پالیسی بار اور بنچ کے باہمی تعاون کا ہی نتیجہ ہے۔ اس پالیسی کی پیش رفت از خود واضح ہے۔ ایسا بار کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جو نظام عدل کی گاڑی کے دوسرے پہیے کی معاونت کر رہی ہے تاکہ نظامِ عدل بہترانداز میں چل
سکے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کہا کہ یہ ہم سب کا فرض اور ذمہ داری ہے کہ معاشرے میں قانون کی حکمرانی کے لے اپنا کردار ادا کریں یہ آئین اور قانون کے ساتھ ہمارا عہد ہے کہ انصاف کا بول بالا کسی بھی تفریق کے بغیر ہونا چاہئے اور ہر انسان کے ساتھ قانون کے مطابق برتائو ہونا چاہئیے۔ ہمارا حلف ہمیں پابند کرتا ہے کہ ہم معاشرے میں امن و سکون برقرار رکھنے کے لئے اپنے دائرہ ا ختیار میں رہتے ہوئے ہر ممکن قدم اٹھائیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے یہ الیکشن ایک نئے دور کا آغازہیں ۔ اب یہ ذمہ داریاں آپ کے کندھوں پر ہیں۔ نئی بنائی گئی اسلام آباد ہائی کورٹ نے آپ کے سامنے نئے چیلنجز رکھے ہیں۔ یہ اب آپ پر ہے کہ آپ نئے رخ متعین کریں آپ کے پیش رو جواچھی مثالیں چھوڑ کر گئے ہیں آپ کے لئے بھی اسی طرح بعد میں آنے والوں کیلئے بہتر نمونے پیش کریں۔ ان چیلنجوں سے نبٹنے کیلئے آپ کو ایک اچھی اور مثبت سوچ کے ساتھ سخت محنت کرنی ہے۔ قانون کی حکمرانی کے لئے کی گئی کوشش اور نظام انصاف کے حصول میں ہماری مشترکہ مدد کے بغیر یہ کچھ نہ ہے۔ان کا کہنا تھا کہ بار کی آزادی سائل اور عوام کی فلاح و بہبود کیلئے یکساں اہمیت کی حامل ہے۔ یہ سائل کے لئے صحیح علم اور مہارت کی فراہمی کو یقینی بناتی ہے۔ یہ معاشرے کیلئے قانون کو نافذ العمل بنانے میں ایسی خدمات سرانجام دیتی ہے کہ قانون پر اس کے روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ بار کی پہچان پیشہ کے طور پر ہے نہ کہ خدمت کی صنعت کے۔چیف جسٹس آف پاکستان نے تقریب ختم ہونے سے قبل کہا کہ میں آپ کی توجہ ایک مزید قومی سانحے کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہوں جس کا ہماری قوم نے 15یوم کے مختصر عرصے میں سامنا کیا، گیاری کے مقام پر ہمارے فوجی جوانوں کے لاپتہ ہونے کے بعد، جن کے بارے میں ابھی تک کچھ پتہ نہیں چل سکااور اب اس مرتبہ 127لوگوں نے گزشتہ ہفتے اسلام آباد میں ہونے والے ایک فضائی حادثہ میں اپنی جانیں کھو دیں۔انہوں نے مذکورہ دونوں واقعات میں شہید اور جاں بحق ہونے والے پاکستانی شہریوں کے فاتحہ خوانی بھی کروائی ۔
You must be logged in to post a comment.