
کچھ روز قبل جنرل راحیل شریف نے کہا کے دہشتگردوں کا ہر آخری ٹھکانہ تباہ کردیں گے،شدت پسندوں کے خلاف ایک کامیاب کاروائی عمل میں لائی گئی اور پچاس سے زائد کمانڈو دہشتگردوں کو واصلِ جہنم کیا گیا۔انٹیلی جنس کی رپورٹ تھی کے پنجاب میں تخریب کاری ہونے کے حدشات موجود ہیں مگر افسوس صد افسوس کے ادارے اگر اب غلطی سے تعاون کو یقینی بناتے ہوئے ایک دوسرے کو اپنی رپورٹ سے آگاہ کر ہی دیتے ہیں تو دوسرے اداروں کے کانوں پر جوُں تک نہیں رینگتی۔15مارچ 2015 بروز اتوار ایک طمانیت سے چہکتی فضا کا یوم تھا مگر پورا ملک تب شدید کہرام اور صدمے کی حالت میں چلا گیا جب لاہور کے علاقے یوحنا آباد جو کرسچن کمیونٹی کا گڑھ ہے جہاں لاکھوں مسیحی رہائش پذیر ہیں وہاں کے دو گرجا گھروں میں خودکش بمباروں نے داخلہ نہ ملنے کی صورت میں اپنے آپ کو گیٹ پر ہی اڑا لیا۔سیکیورٹی الیپس اس سانحے کی وجہ بنی ،ہم اس بات سے آشنا ہیں کہ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا اس سے پہلے بھی مسجدوں ،امام بارگاہوں ،گرجاگھروں کو ٹارگٹ کیا جاتا رہا ہے لیکن پھر بھی چندایک اہلکار وں کو ان حساس مقامات کی حفاظت پر معمور کر کے حکمران اس بات کے دعوے دار ہوجاتے ہیں کہ ہم نے سیکیورٹی پلان تسلی بخش اور فول پروف بنا رکھا ہے ۔شہباز شریف عیادہ تو بہت پختہ ظاہر کرتے ہیں میٹنگ میں سر جوڑ کر حکمتِ عملی بھی بنا تے ہیں لیکن شاید ہوا میں ہی اس پر عمل درامدہوتا ہو ان کے وزیر انتہا کے کاہل ہیں کابینہ پر چند با اثر رہنماوُں کا راج ہے چاہے ان کی پرفارمنس صفر ہی کیوں نہ ہو۔عملدرآمدہوتا ہو ان کے وزیر انتہا کے کاہل ہیں کابینہ پر چند با اثر رہنماوُں کا راج ہے چاہے ان کی پرفارمنس صفر ہی کیوں نہ ہو۔ جب وفاق کو رپورٹ موصول ہوتی ہے تو وہ اسے متعلقہ صوبے کی وزارتِ داخلہ کو ارسال کرتا ہے اور شاید شجاع خانزادہ کو بھی یہ رپورٹ بھیجی گئی ہو جس پر انہوں نے کوئی بھی اقدام کرنے سے گریز کیا۔یہ کیا جواز ہے کہ دعائیہ تقریب تک خودکش بمبار کی رسائی ممکن نہ ہو سکی اسکا مطلب سیکیورٹی تسلی بخش تھی اب اگر دہشتگرد کے پاس وقت کم تھا اور وہ داخل نہ ہوسکا تو یہاں اس بات کی تصدیق کیسے ہوتی ہے کہ وہاں کا پہرا شدید تنگ تھا اہلکاروں کی بڑی تعداد نے تمام اعلیٰ حفاظتی قدم اٹھا رکھے تھے ۔کلیجہ پھٹا جا رہا ہے یہ بتاتے ہوئے کے بچے،پولیس اہلکار،مسیحی بھائی،بہنوں سمیت 18 افراد اس سانحے کا لقمہ اجل بنے اور 75 سے زائد زخمی ہوئے ۔دہشتگرد کا کوئی دین نہیں،کوئی مسلک نہیں اور نہ ہی رائی کے دانے برابران میں بشر کے اندرپائے جانے والے جذبات ہیں۔ متعصب فرقہ ورانہ فسادات کو ہوا دے کر ملک کو حالتِ جنگ میں دھکیلا جارہا ہے۔تحریکِ طالبان پاکستان سے ملحقہ جماعت الاحرار نے اس سانحے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے یہ دہشتگرد ،خوارج گھٹیا لوگ دراصل کرائے کے قاتل ہیں یہ سانحات رونما کرنے کے لیے اغیار سے فنڈ کھاتے ہیں اور عقل و حس سے عاری وحشی درندے ہیں جو سب کچھ دشمن کی ایماء پر کررہے ہیں۔وزیرِاعظم اور آرمی چیف کے بیانات ان کو ہضم نہیں ہوئے کے ملک میں موجود ہر آخری دہشتگرد کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے ،ظالمان کی مذموم کاروائیوں نے پوری قوم کو زچ کر رکھا ہے اور بڑھتے ہوئے اندوہناک سانحے دلوں کو جنجھوڑ رہے ہیں دل رنج و غم کے باعث کلفت ڈیرے جما چکی ہے۔چند مسیحیوں نے دو بے قصور مسلمان جو کے راہ گزیر تھے انہیں شبہ کی بدولت پکڑ کے بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا یا اور پھر پٹرول چھڑک کر آگ لگا دی ،پولیس اور سول سوسائٹی خاموش تماشائی بنی رہی کچھ لوگ اس ہولناک واقعے کی ویڈیو بنا تے رہے اور کسی نے بھی مداخلت کو اپنا انسانی فریضہ نہیں گردانہ ۔مشتعل مظاہرین نے جائے وقوعہ پر ایک بھی کارآمد ثبوت نہیں چھوڑا۔جلاوُ گھیراوُ سے لاہور شہر کا امان مزید تباہ و برباد کردیا گیا اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی جزوی احتجاج نے شہریوں کے معمولات زندگی متاثر کیا اور جینا دربہر کر دیا۔معاملہ اقلیت کی خون ارزانی تک نہیں رہا بلکہ بھاری اعداد والے مسلمان بھی اس المناک دہشتگردی کی لپیٹ میں ہیں ،شواہد مٹا دئیے گئے اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی جزوی احتجاج نے شہریوں کے معمولات زندگی متاثر کیا اور جینا دربہر کر دیا ۔ اس سے پہلے بھی پشاور چرچ حملہ ہوا تھا جسے ہم چاہ کربھی بھول نہیں سکتے اور نہ ایسا کر گزرنا ممکن ہے مظاہرین کو صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے تھا، اس سے پہلے بھی تعصب کی بنیاد پر مسیحی میاں بیوی کو زندہ جلانے کا واقعہ کوٹ رادھا کشن میں پیش آچکا ہے ان تمام افراد جو اس انسانیت سے عاری فعل کا حصہ بنے انہیں کیفرِ کردار تک پہنچانا چاہیے۔حکومتی عہدیدران کے جوازات اتنے بے دقیقی معلوم ہوتے ہیں یہ محض اختراع کے سو ا کچھ بھی نہیں مذمت کے چند الفاظ اور غم میں برابر کا شریک ہونا بس زبانی بات ہے اس سے کسی کے اپنے نے واپس نہیں آجانا۔ پشپ آف لاہور نے بادشاہی مسجد کے خطیب سے نجی چینل کے پروگرام میں جبھی ڈال کر متحد ہونے کا ثبوت دیا۔حکمرانوں کی درخواستیں کہ یکجا ہوجائیں اتحاد کا دامن نہ چھوڑیں بھی وقتا فوقتا جاری و ساری ہیں لیکن شدید سیاسی بھونچال سے باہر نکلنے کے بعد اگر یہ اپنی سمت درست کر لیتے امن کے لیے کوششیں کرتے تو شاید حالات مختلف ہوتے ۔آئندہ وختہ ڈالنے کی بجائے ان رہنماوُں کو امن مستحکم کرنا ہوگا ۔ایسے افراد جو انسانیت سے گرے ہوئے ہیں جو کرسچن کمیونٹی کے لیے شرم کا سبب بنے انہیں فرزا دینے والی سزا دینی چاہیے۔ ’’کہیں سامانِ مسرت ،کہیں سازِ غم ہے کہیں گوھرہے ،کہیں اشک وسسکیاں‘‘
You must be logged in to post a comment.