تازہ ترینسیّد ظفر علی شاہ ساغرؔکالم

جمہوری عمل میں حکومت اورمیڈیا کا کردار

zafar ali shah logoاتحادّی سہی تاہم اس وقت وفاق اور صوبائی سطح پرمنتخب حکومتیں قائم ہیں ۔اور حکومت میں شامل اتحادی جماعتیں ہو یا حکومت مخالف سب کے سب جمہوریت،جمہوری استحکام اور جمہوری سفر کی صدائیں بلند کرتے نظر آتی ہیں ۔لیکن کیا محض کسی منتخب حکومت کا نام جمہوریت ہوتاہے؟ اپنی من مانی کرتے ہوئے یہ دیکھے بغیر کہ یہ ملک وقوم کے بہتر مفاد میں ہے کہ نہیں حکومت کوئی بھی قدم اٹھائے گی تو یہ جمہوریت کہلائے گی یااسے جمہوریت کہا جا ئے گاکہ اٹھایا گیا کوئی بھی حکومتی اقدام جو ملک و قوم کی بہتری کے لئے کیوں نہ ہومگر حکومت مخالف جماعتوں کی مرضی و منشاء کے خلاف ہواسے اپوزیشن جماعتیں عوامی مفاد کی آڑمیں انا کا مسلۂ بناکر اس کی مخالفت کرتے ہوئے یہ کہیں گی کہ اس سے جمہوریت کے لئے خطرہ ہے؟اخبارات اور الیکٹرانک میڈیاحکومتی اقدامات کو کوریج دیتے ہوئے ان کو جمہوریت کے فروغ سے تعبیر کریں گے تو اسے جمہوریت کا فروغ سمجھااور کہا جائے گا یا اپوزیشن جماعتوں کی حکومت مخالف ہرزہ سرائی کی کوریج کو؟یہ ایسے سوالات ہیں جن کے جواب سیاسی اداروں نے دینے ہیں۔اگر منتخب حکومت ہی کا نام جمہوریت ہے تو منتخب حکومت توالیکشن2002 میں بھی بنی تھی جس میں 2008تک پہلے میر ظفراللہ خان جمالی اور بعد میں شوکت عزیز منتخب وزراء اعظم تھے پھر اس حکومت کو جمہوریت سے تعبیرکیوں نہیں کیا جاتا اس پر سوالیہ نشان کیوں؟اگر ہم پاکستان میں جمہوریت کی بات کرتے ہیں اور رواں دور میں جاری عمل کو جمہوریت سے تشبیہ دیتے ہیں تو ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ یہ ابھی ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہاں زیادہ ترآمریتوں کی بالادستی رہی ہے اور جو منتخب حکومتیں بنی ہیں وہ بھی جمہوری تقاضوں پر پوری نہیں اُتریںیہی وجہ ہے کے یہاں جمہوریت مستحکم ہونے اور اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں کافی تاخیر ہو گئی ہے۔جمہوریت کی سب سے اہم کامیابی جمہوری تسلسل سے منسلک ہوتی ہے اور اس نظام کا تسلسل ہی اس میں موجود خامیوں اورکمزوریوں کا سبب بنتا ہے مگر یہ ہماری بدقسمتی ہے کہ جمہوری عمل تسلسل کے ساتھ آگے نہیں بڑھ سکا اور ہم ساٹھ سال سے زائد عرصہ پر محیط سفر کرنے کے باوجود وہیں پر کھڑے ہیں جہاں سے چلے تھے۔موجودہ حکومت اگرچہ عوامی توقعات پر پوری نہیں اتری ہے لیکن اگر حقیقت نظری کیساتھ زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو اسے ابتداء ہی سے سیاسی،سماجی،قانونی،انتظامی،اور معاشی مشکلات درپیش تھیں ایک طرف مخلوط حکومت کی تشکیل مشکل مرحلہ تھاتو دوسری جانب حکومت مخالف جماعتوں سے زیادہ اتحادی جماعتوں نے حکومت کو مختلف ایشوز پر آزمائشوں میں ڈال کرُ مشکلات سے دوچار کیا تھاجس کے باعث حکومت بہتر کارکردگی دکھانے کے بر عکس غیر ضروری ایشوز میں پھنس کر آگے جانے کا راستہ ہی بھول گئی۔یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ جمہوری عمل کی کامیابی دراصل حکومت یا حکومت میں شامل جماعتوں کی مرہونِ منت نہیں ہوتی بلکہ اس میں حکومت مخالف جماعتیں،میڈیااور سول سوسائٹی کے دیگر ادارے بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جمہوری عمل کی کامیابی کے لئے اِن تمام اِداروں کا آپس میں باہمی ہم آہنگی کا ایک تعلق جڑا ہوتا ہے مگر یہاں بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہے نہ ہو سکا اور یہی وجہ ہے کہ جمہوری قوتوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ غیر جمہوری قوتوں نے اُٹھایا۔پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری عمل کی کامیابی میں جو عوامل کارفرما ہوں گے ان میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا بھی بڑا اہم کردار ہوگا۔اگرچہ یہاں میڈیا آزاد ہے اورآزاد فضاء میں اپنا کردار ادا کر رہاہے لیکن بدقسمتی سے میڈیا کے اندر مقابلے اور ایک دوسرے پر سبقت لینے کی دوڑ میں میڈیا چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک اپنا وہ کردار ادا کرنے سے قاصر رہا جو چاہیے تھا اور جس کی توقع کی جا رہی تھی۔اِسی تناظر میں دیکھا جائے تو میڈیا کے مجموعی کردار نے مُلک میں جمہوریت اور جمہوری عمل کو مستحکم کرنے کے مقابلے میں کمزور کیا ہے اور شائد اس وجہ سے ان قوتوں کو زیادہ فائدہ ہوا جو غیر جمہوری نظام کو مضبوط دیکھنا چاہتے تھے۔میڈیا کو مخصوص نظریہ،سوچ اور ایجنڈا کی بجائے ہر لحاظ سے غیر جانبدار ہونا چاہیے اور کارکردگی چاہے حکومت کی ہو یا حکومت مخالف جماعتوں میڈیا کو تنقیدوتعریف کے تناظر میں اپنا غیر جانبدار انہ اور پیشہ وارانہ کردار نبھانا چاہیے نہ کہ حکومت کی مخالفت تو اپوزیشن کی حمایت اور حکومت کی حمایت تو اپوزیشن کی مخالفت جب کہ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ یہاں میڈیا کے کردار پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں جو کہ یقینی طور پر جمہوریت اور جمہوری عمل کے لئے نیک شگون اور اچھی بات نہیں ہے۔بعض دفعہ ایسا تاثر دیا جا تا ہے کہُ ملک ایک ناکام ریاست ہے ایسی خبروں سے جہاں اقوام عالم میں مُلک کا تشخص بدنام ہوتا ہے وہاں غیر ملکی سرمایہ کارُ ملک میں سرمایہ کاری سے کتراتے ہیں کیونکہ کوئی بھی شخص ایک ناکام ریاست میں اپنا سرمایہ ڈبونے کا نہیں سوچ سکتا یہی وجہ ہے کہُ ملک معاشی بد حالی سے نکل ہی نہیں رہا ہے جب کہ غور طلب بات یہ بھی ہے کہُ ملک کو نا کام ریاست کے طور پر یاد کرنے سے ملک کے عوام بھی مایوسی کے شکار ہوکر نفسیاتی مریض بن رہے ہیں۔وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قوم کو مایوسی دینے کے بجائے ان میں حوصلہ اور جینے کیُ امنگ پیدا کرنے کی غرض سے خوشحالی اور کامیابی کو بنیاد بنا لیں۔بہر حال ایک بات تو طے
ہے کہ آج ہمارے ہاں جمہوریت اور جمہوری عمل جس ارتقائی عمل سے گزر رہا ہے اس میں محض حکومت اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے کردارکو جمہوریت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے نہ ہی صرف حکومت اور ایک پارٹی کو جمہوریت کی ناکامی کا ذمہ دار قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ اس میں تمام اسٹیک ہولڈرز کا چاہے حکومت ہو یا حکومت مخالف جماعتیں ہوں سب نے اپنا اپنا کردار ادا کرناہوتاہے جو اگر سنجیدگی اور ذمہ داری سے ادا کیا جائے تویہاں جمہوریت مضبوط اور توانا ہو سکتی ہے۔اور جب تک اس عمل کے ذریعے نظام تشکیل نہیں پاتا تب تک جمہوریت کا مضبوط ہونا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے اور ایسے میں پھر مسائل و مشکلات میں گری اور مایوسی کی شکار عوام یہ کہنے میں حق بجانب بھی ہوں گے کہ جمہوریت سے تو آمریت بہتر ہے۔اب فیصلہ ہمارے ہاتھ میں ہے کہ جمہوریت کو مستحکم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کر کے غیرجمہوری قوتوں کا راستہ ہمیشہ کے لئے بند کردیںیا پھر ایک منتخب اور جمہوریت کی علمبردا حکو مت کے ہوتے ہوئے بھی جمہوریت کی مضبوطی کے بر عکس غیر جمہوری قوتوں کو تقویت دیں۔ہمیں اس بات کا بھی ادراک اور احساس کرنا ہوگا کہ طویل جدوجہد کے نتیجے میں ہمیں جمہوری سفر کامیابی سے طے کرنے کا موقع ملا ہے اور قوموں کی تاریخ میں ایسے مواقعے باربار نہیں ملا کرتے۔

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button