خیبر پختونخواہ کے بلدیاتی انتخابات

30مئی بروز ہفتہ خیبر پختونخواہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا گیا ۔ دن بھر تما م قومی ٹی وی چینلز نے ان انتخابات کی کوریج کی ۔ اور رات گئے ٹاک شوز میں بحث و مباحثہ ہوتا رہا ۔ بلدیاتی انتخابات جمہوریت کی اساس ہوتے ہیں ۔ انکی بدولت اختیارات اور مالی فوائد عام عوام تک پُہنچنے کا راستہ ہموار ہو جا تا ہے ۔ بلدیاتی انتخابات عا م فہم میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے مشکل اور پچیدہ ہوتے ہیں ۔ اُمیدواران کو گلی محلہ کی سطح پر دن رات محنت کرنا پڑتی ہے ۔ انتخابی حلقے چھوٹے ہونے کی وجہ سے ذات برادری کی اہمیت اُمیدوارکی شخصی قابلیت اور دیانتداری پر حاوی ہو جاتی ہے ۔ صوبہ میں ہونے والے بلدیاتی انتخابات کا جائزہ لینے کے لیے ضروری ہے کہ علاقہ کے جغرافیائی حالات اور دیگر زمینی حقائق کو بھی مدّ نظر رکھا جائے ۔ پچھلے تیس سالوں سے جاری افغان جنگ نے پورے صوبہ کو شورش زدہ بنا دیا ہے ۔ ہر قسم کے اسلحہ کی نمائش عام ہے ۔ عوام مکمل طور پر ذات برادری اور قبیلوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ علاقائی مخاصمت ، زن ، زر اور زمین کے جھگڑے اپنی جگہ پر ہیں ۔ پختون معاشرہ میں عورت کی حیثیت ثانوی ہے۔
بلدیاتی انتخابات کے دوران صوبہ بھر میں 11500پولنگ اسٹیشنز قائم کئے گئے تھے ۔41000اُمیدواروں نے انتخابات میں حصہ لیا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً سو پولنگ اسٹیشنز پر بد نظمی یا دھاندلی کے واقعات رونما ہوئے ہیں ۔ صوبہ میں امن و امان کے حالات قطعاً مثالی نہیں ہیں ۔ ان حالات میں بلدیاتی انتخابات کا کا میاب انعقاد ایک معجزہ سے کم نہیں ۔ مختلف ٹی وی چینلز کے ایکنر پرسنز ان انتخابات میں ہو نے والی بد نظمی دس افراد کے قتل اور دیگر واقعات کے تناظر میں صوبائی حکومت اور اِسکی انتظامیہ کو قصور وار قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن مجھے یاد ہے کہ صوبہ پنجاب میں منسوخ شدہ بلدیاتی انتخاب کی انتخابی مہم کے دوران ضلع شیخوپورہ کے ایک گاؤں میں ڈوگر برادری اور جٹ برادری کے متحارب گروہوں کے درمیان ہونے والی لڑائی میں دو شخص قتل کر دیئے گئے تھے ۔ شیخو پورہ ، گجرات ، گوجرانوالہ اور جہلم کے اضلاع آج بھی امن و امان کے لحاظ سے مسائل کا شکار ہیں ۔ ان ٹی وی اینکر پر سنز کو اسلام آبا د یا لاہور میں بیٹھ کر تبصرہ کرنے کی بجائے بشام ، بٹگرام ، بنوں، کوہاٹ، ڈی آئی خان جیسے اضلاع کا دورہ کرنا چاہیئے تھا تا کہ وہ زمینی حقائق کو سمجھ سکتے۔ ہمارا ملک آسٹریلیا یا انگلینڈ نہیں جہاں پر لوگ سبزی لینے جاتے ہیں اور واپسی پر پولنگ اسٹیشن پر اکیلی بیٹھی ہو ئی فی میل (Female) پولنگ آفیسر سے بائیو میٹرک سسٹم کے ذریعہ اپنے ووٹ کی پرچی حاصل کرتے ہیں اور پولنگ بکس میں ڈا ل کر واپس گھر آجاتے ہیں ۔
تحریک انصاف کے حوالہ سے یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تحریک نے ٹکٹوں کی تقسیم میں پھر کنٹونمنٹ بورڈ کے الیکشنز کی تاریخ کو دہرایا ہے ۔ بعض اضلاع مثلاً سوات میں پی۔ٹی۔آئی کی ناکامی نے بہت سارے سوالات کو جنم دیا ہے ۔ سوات میں ٹکٹوں کی تقسیم کا معاملہ صوبائی اسمبلی کے ارکان پر چھوڑ دیا گیا تھا جنہوں نے اپنے عزیز و اقارب میں ٹکٹیں تقسیم کیں ۔ طالبان کے بارے میں گو مگو کی پالیسی نے بھی سوات میں شکست کا دروازہ کھولا ۔ عمران خاں سے درخواست ہے کہ آنے والے قومی و صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے پہلے اپنا ہوم ورک مکمل کریں ۔ پی ۔ٹی۔آئی کو کامیابی کیلئے سخت محنت اور نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ آغاز میں پاکستان پیپلز پارٹی کا اندازِ سیاست بھی پی۔ٹی۔آئی جیسا تھا ۔ لیکن اُس وقت کے معروضی حالات اور آجکل میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ اُس وقت پیپلز پارٹی کی قیادت ذوالفقار علی بھٹو جیسے نابغۂ روزگار سیاستدان کے ہاتھ میں تھی جو مردم شناسی اور سیاسی داؤ پیچ میں اپنا ثانی نہیں رکھتا تھا ۔لیکن بھٹو کے مقابلہ میں عمران خاں صاف گو اور سادگی پسند ہیں ۔ دوسروں پر جلد اعتبار کر لیتے ہیں عمران کو چاہیئے کہ اپنی ناکامیوں کا ٹھنڈے دل سے تجزیہ کریں ۔ گلگت بلتستان کی انتخابی مہم میں گو کہ پی۔ٹی۔آئی کو خوب عوامی پذیرائی نصیب ہوئی ہے ۔ لیکن کسی بہت بڑی کامیابی کی توقع نہیں ۔ اِسکی وجہ پی۔ٹی۔آئی کا انتخابی میدان میں بغیر کسی منصوبہ بندی کے دیر سے کودنا ہے ۔ اب وقت آگیا ہے کہ آزاد کشمیر کے انتخابات کیلئے کمر کس لی جائے ویسے بھی عمران خاں کو چاہیئے کہ پورے ملک میں حلقہ وار جائزہ لیں ۔ جیتنے والے اُمیدواران کو پارٹی میں شامل کریں ۔ شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین مشہو ر ضرور ہیں لیکن مقبول عوامی سیاستدان نہیں ہیں ۔ اُنکی جگہ پر چودھری سرور جیسی عوامی پذیرائی رکھنے والی شخصیات کو زیادہ اہمیت دیں ۔ بصورتِ دیگر پارٹی کی مقبولیت میں مسلسل کمی کا سامنا کرنا پڑے گا
You must be logged in to post a comment.