کالممحمد فرحان عباسی

کچھ تو خیال کر

نصیحت کے الفاظ سے سب ہی واقف ہوں گے ،کھبی تو بڑے چھوٹوں کو اور چھوٹے بڑوں کو نصیحت کرتے ہیں ،مگر بات وہی آجاتی ہے کہ سنو سب کی کرو اپنی ،یعنی کہ ہر ایک کی بات سنو اور سنتے ہی چلے جائو اس کے منہ پر اس کی بات کا انکار کرنے کے بجائے اقرار کرتے رہو،مگر کرو وہی کام جس پر اپنا دل آجائے ،
اگر اولاد ماں باپ کی نافرمانی کرے تو ماں بات اسے نصیحت کرتے ہیں کہ بیٹا جو کچھ تم کر رہے ہو وہ غلط ہے تم کو اچھے اور نیک کام کرنے چاہیں ہم تمہارے والدین ہیں ہمارا کہا مان لیا کرو ۔
کبھی بچوں کو بھی نصیحت کرتے ہوئے سنا اور دیکھا ہے کہ وہ کسی دوکاندار سے کہہ رہے تھے کہ انکل آپ ملاوٹ شدہ مال بیچتے ہیں اس پر اللہ نے عذاب کی وعید سنائی ہے ،کبھی بچوں کے منہ سے یہ بات بھی سننے کو ملتی ہے کہ ہمارے فلاں رشتہ دار جاننے والے بہت متکبر ہین اور یہ تو اللہ تعالی کی صفت ہے ،
نصیحت کا لفظ ہی ایسا ہے کہ کچھ لوگ اسے خوش دلی سے قبول کر لیتے ہیں اور کچھ لوگ اسے اپنے منہ پر طمانچہ تصور کرتے ہیں ۔
ہمارے ہا ں بھی اب صورتحال کچھ اسی طرح ہے ،اگر کسی کو نصیحت کر دو تو وہ جان لینے پر آ جاتا ہے ،اور وہ اس نصیحت کو اپنے لئے توہیں سمجھتا ہے،اور اکثر دانا لوگ تو ا ب اس ڈر سے نصیحت کرتے ہی نہیں کہ نا جانے اس نتیجہ کیا نکلے اور لینے کے دینے پڑ جائیں۔
ہماری عوام کے ساتھ ساتھ ہمارے حکمرانوں کے بھی حالات و خیالات اس سے برعکس نہیں ہیں ،حکمران بھی عوام کی طرح مغرور و متکبر ہو چکے ہیں اور وہ بھی کسی بھی قسم کی نصیحت کو قبول کرنے یا اس پر عمل کرنے سے عاجزآچکے ہیں ،ان کو عوام کے بجائے اپ نے آقائوں سے یاری زیادہ پیاری ہے ۔بھارتی حکومت نے عوام کے لئے کھانے پینے کی اور روز مرہ کے استعمال کی چیزوں کو اس قدر سستا کر دیا ہے کہ اب وہاںہر چیز عوام کی پہنچ میں آ چکی ہے،اور وہاں کا غریب طبقہ دو وقت کی روٹی باآسانی کھا سکتا ہے
مگر ہمارے ملک کی صورتحال عجیب سے عجیب تر ہوتی جا رہی ہے کہ باقی چیزیں تو دور کی بات ہے اب عوام دو وقت کی روٹی کے لئے بھی پریشان ہیں،ہماری حکومت کو پاکستاں کا ہر دانا شخص ایک ہی نصیحت کر رہا ہے کہ عوام کو جینے کا حق دے دو،اپنی ہی عوام کے منہ سے روٹی کا لقمہ نا چھینواور اس عوام کو سکون کی زندگی بسر کرنے دو ،مگر حکومت ہے کہ سننے سے قاصر ہے ،دیکھنے سے عاجز ہے اور عوام کی خاطر کوئی بھی قدم اٹھانے سے معذور ہے ،اور جو سنتے ہیں وہ سنتے ہی جاتے ہیں مگر عمل اس پر کرتے ہین جو ان کا اپنا جی چاہتا ہے ،یعنی کہ عوام کا خون بھی چوس لو اپنے اکائونٹ بھرنے کے لئے ،اور دفاع کرنے کے لئے کہہ دو کہ استثنائ حاصل ہے ،اور جب بات اس سے نا بنے تو اپنا مقدمہ اپنے آقائوں کی طرف فائل کر دو،پھر عدلیہ جانے اور آقا جانے ،کیونکہ آقائوں کو تو اجازت ہے کہ وہ ہمارے ملک مین جب ،جہاں چاہیں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لئے حملے کرتے پھریں اور ہماری عوام کو تہس نہس کر دیں ،
ہمارے حکمرانوں نے تو ان کی غلامی کرنی ہے چاہے کتنے ہی اپنے لوگوں کو قربانی کا بکرا بنانا پڑ جائے ،
شاعر نے بھی ان کو ایک نصیحت کی تھی کہ ،
ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرامکان ہے کچھ تو خیال کر

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button