مسائل کی دلدل میں صحافت کاکردار

اس میں کوئی دورائے نہیں کہ صحافت ریاست کاچوتھاستون اور صحافی معاشرے کی آنکھیں ہوتے ہیں جورواں حالات اوروسائل ومسائل کے تناظرمیں معاشرتی زندگی کااحاطہ کرکے شہریوں کی غیرمعمولی نمائندگی کافریضہ انجام دیتے ہیں۔اداروں میں مالی بدعنوانی، افسرشاہی کی داستانیں،سرکاری حکام کی شاہ خرچیوں اور اہلکاروں کی غفلت ولاپرواہی کااحوال بتانا،سیاسی لوگوں کی من مانیاں،منتخب نمائندوں کی بے قاعدگیوں،بے ضابطگیوں ،اختیارات کے نا جائزاستعمال ،پسندوناپسنداور اقرباء پروری کی پالیسی کے تحت حق تلفیوں کے قصے کہانیوں کی رازافشانی کرنا، پینے کے صاف پانی ،بجلی اورسوئی گیس کی عدم فراہمی ،سڑکوں،طبی مراکزاورتعلیمی اداروں سمیت انفراسٹرکچرمیں موجود خامیوں کی صورتحال اجاگرکرنا،قتل وغارت گری ،حادثات، واقعات خبروں سمیت پولیس اور انتظامی حکام کی تعریف پر مبنی رپورٹنگ کرنا، محض تنقیدپر مبنی تجزیاتی فیچرزتحریرکرنا،کیاصرف یہی صحافیوں کاکام ہے۔کیاصحافت یہ ہوتی ہے کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاجیسے ذرائع ابلاغ کے اداروں سے وابستہ رپورٹرصرف تنقید وتعریف پر مبنی سیاسی،سماجی اورعوامی بیانات پراکتفاء کرکے خودکودیگر فرائض سے بری الذمہ قراردیں گے،لکھنا،کہنااوربتانایہ مقصود ہے کہ صحافت صرف دوسروں پر تنقیدکرنا،مرچ مصالحہ ڈاکرغیر ضروری مختصرواقعات کوبڑھاچڑھاکر پیش کرنا،اداروں کی بدحالی کوایسے اندازمیں بیان کرناکہ قوم میں مایوسی پھیلے،مذہبی حوالے سے ایسی رپورٹنگ کرناجو فرقہ وارانہ منافرت بڑھنے اورعوامی جذبات مجروح ہونے کاباعث بنے ،بلاتحقیق ایسی رپورٹنگ کرناجس سے کسی شہری کی ذات متاثرہواوراس کی عزت نفس مجروح ہواوراس کوذہنی کوفت پہنچے، اس سے کسی ادارے یااس سے وابستہ کسی شخص کی تذلیل ہو،ایسی رپورٹنگ جوقومی ترقی،عوامی خوشحالی اور ملکی سا لمیت آنچ آنے کاذریعہ بنے کسی طورمثبت صحافت کے زمرے میں نہیں آتابلکہ معذرت کے ساتھ ایساکرناوہ روائتی زرد صحافت کانام ہے جوہمارے اردگرد کے ماحول میں اکثرزیربحث رہتاہے،صحافت کی کتاب میں بتایا،سکھایااورسمجھایاجاتاہے کہ مسائل حل کرنا نہیں بلکہ حقائق پر مبنی طریقے سے اجاگرکرناصحافی کاکام ہوتاہے ذرائع ابلاغ کے اداروں کاکام قوم کو مایوسی میں مبتلاکرکے مسائل اور الجھنوں کے دلدل میں پھینکنانہیں بلکہ شہریوں کو مسرتوں اورشادمیانیوں کی نوید سناکرانہیں مسائل کے بھنورسے نکالنااور مثبت صحافت کے ذریعے علاقے کی تعمیروترقی اور قوم کی خوشحالی کے عمل میں اپناکلیدی کردارنبھاناہی ذرائع ابلاغ کے اداروں پر عائد بھاری معاشرتی ذمہ داری ہوتی ہے جس سے روگردانی قوم وملک کی پستی، پسماندگی اورناقابل تلافی نقصان کاذریعہ بنتی ہے۔جائزہ لیاجائے توتخلیقی صحافت کی بہت کمی ہے بلکہ زرائع ابلاغ کے اداروں کے مابین مقابلے کی دوڑکے تناظرمیں دیکھاجائے تو تخلیقی صحافت دم توڑتی نظرآتی ہے ۔اپنے خوبصورت قدرتی ماحول ،ثقافت ،روایات اور رسم ورواج کاصدیوں پر محیط تاریخی پس منظر ،برف پوش چوٹیوں اورفلک بوس پہاڑوں پر موجود جنگلات اورمعدنیات جیسی قومی دولت کی اہمیت خوبصورت وادیوں کے دامن میں بہتے ندیوں ،آبشاروں پر مشتمل سیاحتی مقامات، روائتی مہمان نوازی جبکہ امن وامان کے قیام ،صحت مند معاشرہ کی تشکیل،صحت،تعلیم اورافراسٹرکچرسمیت قومی وحدت ،ملکی سالمیت ،ریاستی اداروں کے استحکام اورجمہوریت کے فروغ کے لئے سیاسی جماعتوں کی کوششوں کاوشوں اور سماجی اداروں کی خدمات کو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیاکے ذریعے اجاگر کرناوقت کی اہم ضرورت اور ذمہ دارصحافت کاتقاضاہے کیونکہ تصویر کے ہمیشہ دورخ ہوکرتے ہیں کی روسے جہاں مسائل ومشکلات کی نشاندہی کے تناظرمیں تنقید کی جاتی ہے وہیں اچھے اور حوصلہ افزاء اقدامات کی تعریف اور تشہیر بھی ہونی چاہئے جس کاعکس عام طورپرکم دکھائی دیتاہے۔یہاں المیے کی بات یہ بھی ہے کہ ذرائع ابلاغ کے ادارے اپنی وضع کردہ پالیسی پرکاربند ہوتے ہیں جن کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں جو بسااوقات حقائق اور اجتماعی مفادات کے احیاء سے متصادم ہوتے ہیں لیکن آزادی اظہار رائے کے جواز کی بنیادپروہ ہمیشہ اپنی ہی ترجیحات کو مقدم سمجھتے ہیں جوکہ انتہائی نامناسب اور نقصان دہ عمل ہے۔چونکہ صحافی کومعاشرے کا باخبرذمہ دارفرد اور کسی بھی معاملے میں اس کی رائے کوبڑااہم سمجھاجاتاہے اس لئے اس کے تجزیئے اور تبصرے عوامی رائے بننے میں اہمیت کے حامل تصور کئے جاتے ہیں سواگرصحافی کاتجزیہ اور تبصرہ حقائق پر مبنی قومی مفادات اور عوامی فلاح کے لئے ہوتوقوم کی ترقی میں سودمند ثابت ہوتاہے لیکن اگر یہ حقائق کے برعکس ہواتواس کے غیرمعمولی نقصانات بھی سامنے آتے ہیں ۔صحافت کی کتاب کے ورق پر یہ بھی درج ہے کہ اگر قلم کے ذریعے کسی کوذلیل وشرمسارکرنے کی بجائے مناسب ہوگاکہ اسی قلم کے ذریعے اس کی اصلاح کی تدبیرسوجھی جائے مقابلے کی دوڑاور سب سے پہلے ہم کی دھکم پیل میں اتنااحساس سے عاری نہیں ہوناچاہئے کہ قومی وحدت ،وقار اور اجتماعی مفادات کے برعکس محض اپنی ہی ترجیحات مقدم نظر آئیں ۔ذرائع ابلاغ کے اداروں کے مالکان اور انتظامیہ پر عائد بھاری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ وہ اپنے اداروں سے جڑے نمائندوں کی بنیادی تربیت کریں تاکہ مثبت صحافت کافروگ اور عوام کی ذہنوں میں صحافت کابہتر تاثر قائم ہو۔
You must be logged in to post a comment.