اسلام آباد ﴿بیورو رپورٹ﴾ جمعیت علمائ اسلام کے سربراہ مولانا فضل ا لرحمن نے کہا کہ مجھ پرکسی کا منتر نہیں چلتا منتر میرا ہی چلتا ہے پارلیمنٹ کی سفارشات میں ہمارا موقف تسلیم کیا گیا اب حکومت کے پاس خارجہ پالیسی کا مینڈیٹ نہیں خارجہ پالیسی کیلئے طریقہ کار بنا دیا گیا ہے اب کوئی زبانی عماہدہ نہیں ہوگا ۔ نجی ٹی وی کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹی کے مسودے میں راہنما اصول دیئے گئے ہیں جن پر پہلے ہی ہمارا کوئی اعتراض نہیں تھا ہم یہ چاہتے تھے کہ ایسی مستحکم بنیادیں فراہم کی جائیں کہ آنکھیں بند کرکے جس خارجہ پالیسی کی ہم پیروی کرتے ہیں مستقبل میں ہمارے اپنے بنیادی اصول ہوں جن پر خارجہ پالیسی قائم ہو انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے ابتدائ ہوئی ہے جو مستحسن ہے اور پارلیمنٹ جو بنیادی اصول دے رہی ہے اس پر خارجہ پالیسی مرتب ہونی چاہئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مجھ پر کسی کا منتر نہیں چلتا منتر میرا ہی چلتا ہے اور میں کامیاب رہتا ہوں سفارشات پر ترامیم ہم نے پیش کی تھیں جنہیں اپوزیشن جماعتوں نے بھی تسلیم کیا تھا اور اس کے بعد حکومت نے بھی انہیں مان لیا انہوں نے کہاکہ سفارشات کے پہلے مسودے میں حکومت کو نئی شرائط طے کرنے کے بعد سپلائی لائن بارے فیصلہ کرنے کا مینڈیٹ دے رہے تھے لیکن ہم نے کہا کہ حکومت کو مینڈیٹ دینے کی بجائے اس چیز کو ختم کردیا جائے اور کہا کہ یہ انتظامی معاملہ ہے افغانستان میں اگر معاملات صلح کی جانب جارہے ہیں تو پھر اسلحہ کی ضرورت نہیں لہذا یہ واضح ہونا چاہئے کہ پاکستان کی سرزمین اور فضا سے کسی قسم کا اسلحہ افغانستان نہیں جائے گا اور دوسری اشیائ کے افغانستان لے جانے کے لئے زبانی معاہدوں کو ضبط تحریر میں لایا جائے اگر ایسا نہ ہوسکا تو زبانی معاہدے منسوخ تصور ہوں گے اور ہم نے کہا کہ زبانی معاہدوں کی کوئی حیثیت نہیں ہونی چاہئے انہوں نے کہا کہ مسودے کے مطابق آئندہ خارجہ پالیسی کے لئے حکومت کے پاس مینڈیٹ نہیں اس کے لئے ایک لائحہ عمل طے کیا گیا ہے اور اس طریقہ کار کے مطابق خارجہ پالیسی بنے گی فضل الرحمن نے کہا کہ عافیہ صدیقی اور ریمنڈ ڈیوس پر ہمارا موقف آچکا ہے جزوی مسئلوں پر اپنے اپنے موقف پر قائم ہیں لیکن اس وقت خارجہ پالیسی کیلئے راہنمائ اصول بنائے جارہے تھے اور انہی اصولوں کے تحت اچھے راستے کا تعین ہوگا انہوں نے کہاکہ پارلیمنٹ کو کوئی ڈکٹیٹ نہ کرے۔
You must be logged in to post a comment.