امتیاز علی شاکرتازہ ترینکھیل

نئے دور کے مشعل بردار بن گئے

اسلام سے پہلے ہرطرف جہالت کا دوردورہ تھا ۔جاہل لوگ اپنی جہالت پر فخر کرتے تھے ان کے ماضی نہ ختم ہونے والی قبائلی جنگوں تک محدود تھی ۔ان جاہل قوموں کی سوچ کے مطابق جنگوں کو جاری رکھنے کے سوا ان کا کوئی مستقبل نہ تھا۔جو لوگ ظلم کرنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے انہیں ظلم سہنے پر مجبور کردیا جاتا تھا۔لیکن جب اسلام آیا تویہی مظلوم لوگ ایک نئے دور کے مشعل بردار بن گئے ۔کارساز فطرت نے اپنی رحمت کی گھٹائوں کے نزول کے لیے ایک بے آب وگیاہ صحرا کو منتخب کیا۔عرب کے ظلمت کدہ سے نور کا ایک سیلاب نمودار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مختلف قبائل اور اقوام کو اپنی آغوش میں لیتا ہوا چاروں طرف چھا گیا۔اور تب اسلام تپتے ہوے صحرا میں ٹھنڈے ،میٹھے پانی کا چشمہ ثابت ہوا۔خلق خُدا جو جہالت کے اندھرے میں بھٹک رہی تھی اومعاشرے میں عدل انصاف کا تصور تک نہ تھا۔جب انسانیت ظلم و جبر کی چکی میں پس رہی تھی ۔اسلام نے پسی ہوئی انسانیت کو عدل و مساوات کا پیغام دیا ۔زندگی گزارنے کے لیے ایسا ضابطہ عطا کیا جس میںاسلام کی حکمرانی کے تصور کے کے ساتھ ساتھ مسلمان حکمرانوں کو انسانیت کے بلند ترین مسند پر بیٹھایا۔افسوس کہ جس مسلم سلطنت کا خواب برصغیر کے مسلمانوں نے دیکھا تھا ۔اس ملک خُداداد میں آج 65برس آزادی کے گزار کر بھی اللہ تعالیٰ کا دین اسلام نافذنہیں ہو سکا۔دور جہالت کے قوانیں پر عمل پیرا ہوکر ہم چاہتے ہیں کہ معاشرے میں عدل انصاف کی حکمرانی قائم ہو۔جب میں تحریک آزادی پاکستان میںمسلمانوں کی عظیم قربانیوں کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کوئی افسانہ پڑسن رہا ہوں وہ اس لیے ملک میں نہ تو عدل انصاف کی حکمرانی ہے، نہ حکمران دین حق کی سمجھ رکھتے ہیںاور نہ حکمران انسانیت کے تقاضوں سے واقفیت رکھتے ہیں۔مجھے لگتا ہے کہمیرے وطن کے حکمران بھی اس کہانی کے فاتح بادشاہ کی سی حکمرانی کرتے ہیںجو مجھے بچپن میںمیرے بھائی اشفاق علی شاکر سنایا کرتے تھے ۔میں جب بھی کہانی سنانے کی ضد کرتا تو بھائی مجھے وہی ایک کہانی سنایا کرتے جس کاخلاصا کچھ یوں ہے ۔کسی ملک میں بادشاہ چننے کاطریقہ یہ تھا کہ سال کے پہلے دن صبح سب سے پہلے جوبھی اجنبی ملک میں داخل ہو تا اسے ملک کا بادشاہ بنادیا جاتا اور پہلے بادشاہ کو ویرانے میںلے جا کر بے یارومددگار مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا۔ایک مرتبہ سال کے پہلے دن سب سے پہلے اس ملک میں ایک اجنبی فقیر آگیا اور وہاں کی عوام نے اپنے دستور کے مطابق اس فقیر کو ملک کابادشاہ بنا دیا ۔وہ فقیر بہت سمجھدارتھا بہت حیران ہوا کہ یہ کیسی قوم ہے جس نے ایک اجنبی فقیرکو اپنا بادشاہ بنا دیا۔اس فقیر نے خود کو خطرے میں محسوس کیا اور کچھ سوچ کر اپنے وزیر کو تنہائی میں اپنے پاس بلا کر کہا تم لوگوں کا وہ بادشاہ کہاں ہے جومجھ سے پہلے تھاوزیر کے نہ بتانے پر فقیر بادشاہ نے اسے کہا کے اگر اس نے نہ بتایا توبادشاہ اس کو سزائے موت کا حکم سنادے گاجس پر یہ راز فقیر بادشاہ کو بتا دیا کہ وہ لو گ اپنے ملک کے تمام سابق بادشاہوںکو ایک ویرانے میں پھینک آئے ہیں اور جب نیا بادشاہ آے گا تو اس فقیر بادشاہ کو بھی اسی ویرانے میں بے یارومددگار چھوڑ دیا جاے گا۔فقیر کونکہ بہت سمجھدار تھا اس نے ایک سال میں اس ویرانے میں بہت سی نہریں کھدوا کر وہاں بہت سے باغات لگوا دئیے بہت سے میٹھے پانی کے کنویں نکلوا دئیے اور بہت سی عالی شان عمارتیں بنوا کر اس ویرانے کو ایک عالی شان شہر میں بدل دیا اس طرح اس فقیر نے نہ صرف اپنی جان بچا لی بلکہ ساری زندگی سکون سے بسر کرنے کا بھی انتظام کرلیا ۔شائد پاکستان کے عوام بھی اس کہانی کے عوام جتنے ہی ظالم ہیں جن کے حکمران بھی پچھلے65برس سے اس کہانی کے فقیر کے جیسے ہی ملے ہیں جو باہر سے آتے ہیں اور دوران حکمرانی ملکی وسائل کا بے دریغ استعمال کر کے اپنے محلات باہر ہی بناتے ہیں پاکستان پر صرف حکمرانی کرتے ہیں اور قوم کی دولت لوٹ کر دوسر ے ملکوں کے بنکوں میں جمع کرتے رہتے ہیں وہ بھی غیر ملکی کرنسی میں ۔ پاکستانی سیاسی اور حکومتی حلقوں میں روح پزیر ہونے والے حالات واقعات ایک مرتبہ تو آسمان کی بلندی چھوتے ہیں اور لگتا ہے اب اگر اس مسئلے کا حل نکل آیا تو باقی تمام مسئلے بھی جلدہی حل ہوجائیں گے لیکن کچھ وقت گزریں پر وہ واقعہ جس ملک وقوم ہلا کررکھ دیا ہوتا ہے وہ اور اس کے کردار منظر سے اس طرح غائب ہوجاتے ہیں جس طرح گدھے کے سر سے سینگ ۔آپ کو یاد پاکستانی سفیرکے خفیہ خط کامنظر عام پر آنے پر ملک کے شب وروز بدل گئے ۔گلیوں میں۔بازاروں میں ۔گاڑیوں میں ۔ٹی سٹالوں پرالغرض کے جہاں دو چار لوگ اکھٹے ہوتے ہیں وہاںاسی کے مطلق تبصرے ہو رہے تھے۔ ہر کوئی اپنی سیاسی وابستگی اور دانش کے مطابق اپنی رائے دے رہا تھاجس میں زیادہ ترلوگوں کی رائے یہی تھا کہ شاید اب آصف زرداری بھی مشرف کی طرح ہی ملک سے چلے جائیں اور پھر ملک واپس نہ آئیں۔ اور ماضی کی طرح یہ جمہوری حکومت بھی اپنی مدت پوری ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے اور عبوری حکومت بن جائی جو جلدازجلد الیکشن کروا کر نئی حکومت بننے کے تک کام کرے گی ۔ کچھ ماضی ہی کی طرح آج پھر پاکستانی عوام حکومت کو مشکلات میں دیکھ یہ اندازہ لگا رہی ہے کہ اب اس حکومت سے جان چھوٹ جائے گی اور نئی حکومت ایک تبدیلی لائے گی ۔ یہ سوچ ہے اس طبقے کی جونہ ایجنسیوں کے معاملات جانتا ہے اور نہ ہی حکومتی معاملات سے کچھ واقفیت رکھتا ہے پھربھی اگرکوئی
یہ نہ سمجھے رہا ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ حکومت ختم ہونے کے بعد کوئی آسمانی فرشتے حکمران آنے والے ہیں تواس کی سوچ بہت غلط ہے ۔کیونکہ اس بار بھی ہمیشہ کی طرح عوام سے دھوکا ہی ہوگا۔جہاں تک بات ہے عمران خان کی وہ ایک پر وقار شخصیت کے مالک ہیں ۔لیکن جو لوگ ان کے ارد گرد جمع ہوچکے ہیں ان میںز یادہ تر پرانے ہی چور ہیں۔ تبدیلی کاوہ خواب جو عوام نے 30_10_2011کومینار پاکستان میں ہونے عمران خان کے کامیاب جلسے کے بعد دیکھا تھا عوامی حلقوں میں وہ خواب بھی دھندلا سا گیا ہے۔ عمران خان جن سے عوام بہت سی امیدیں وابستہ کر بیٹھے تھے وہ بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح مصحلت کا شکار نظرآتے ہیں انھیں بھی دوسرے سیاست دانوں کی طرح الیکشن جیت کر حکومت بنانے کی جلدی ہے جس کی وجہ سے وہ اپنی پارٹی میںان لوگوں کوبھرتی کررہے ہیںجن کوعوام پہلے کئی مرتبہ آزمائ چکے ہیں ۔کیا ہی اچھا ہو اگر عمران خان کسی قسم کے ملکی یا غیرملکی دبائوکو قبول نہ کریں اور اپنے ذہن میں یہ بات نہ آنے دیں کہ پاکستان میں تبدیلی صرف وڈیروں۔جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کی مدد سے ہی آسکتی ہے کیونکہ اگر ایسا ممکن ہوتا توآج عمران خان کو تبدیلی کی بات نہ کرنی پڑتی اور نہ ہی ملک میں کسی تبدیلی کی ضرورت ہوتی ۔مگر آج عوام ملک میں بڑھی تبدیلی دیکھنا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے سب کی نظریں عمران خان پرلگی ہوئی ہیں ۔عمران خان اگر وقتی مصحلت نہ کریں اور تحریک انصاف کو بالکل نئی پر عزم ۔پرجوش ۔ باضمیر۔محب وطن ۔ پڑھی لکھی ۔ صاف کردار کی مالک اور سب سے اہم بات کے قرآن مجید کو سمجھنے والی اور جو اسلام کی روح سے جہاد اور دہشتگردی کا فرق جانتی ہو ۔ جس کے ذہن فرقہ واریت سے پاک ہوںاور جو انسانیت کے تقاضوں سے بھی اچھی طرح واقف ہوایسی نوجوان نسل کی قیادت دیں تاکہ پاکستان کے عوام کو ایک خوش حالی والی تبدیلی مل سکے اور آگے چل کر پاکستان ہرقدم ترقی کی منازل طے کرے اورپاکستانی عوام دنیا و آخرت کے تمام معاملات میں سرخرو ہو پائیں ۔خیر ایسا تو شائد راقم کی زندگی میں نہ ہو ۔ویسے بھی کرکٹ اور سیاست میں بہت سیادہ فرق ہے ۔کرکٹ ٹیم گیارہ کھلاڑیوں پر مشتمل ہوتی ہے اور سیاست میں 20کروڑ عوام کو اعتماد میں لینا ہوتا ہے۔عمران خان جس کو عوام اپنے مسیحا کے روپ میں دیکھ رہے تھے اسے اپنی حکومت بنانے کی بہت جلدی ہے ۔شائدعمران خان کو بھی ماضی کے حکمرنوں کی طرح گرین سیگنل دے دیا گیا ہے کہ اگلی حکومت ان کی ہو گی جس بنا پر وہ ہر لوٹے اور لفافے کو پارٹی میں شامل کررہے ہیں۔عام تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ ن لیگ بھی تو لوٹوں کو شامل کررہی ہے ۔اگرعمران بھی ن لیگ والی پالیسی اپنائیں گے تو وہ کس منہ سے تبدیلی کی بات کرتے ہیں۔اور نہ ہی عمران خان کو نئے دور کے مشعل بردار کہا جاسکتا ہے ۔خیر الیکشن میں کامیابی کسی بھی پارٹی کا نصیب بنے عوام کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آنے والی صرف اور اقتدار کی تبدیلی ہوگی اور کچھ نہیں آج جولوگ حکومت سے باہر ہیں کل کے حکمران ہونگے اور ہمیشہ کی طرح نئے حکمران پرانے حکمرانوں کو تمام مسائل کا ذمہ دار کہہ کر عوام کو ٹالیں گے اور سارادھیان عدلیہ، فوج اور آئی ایس آئی کے سارے اختیار ات کے علاوہ بھی پاکستان کے ہر ادارے کے اختیارات کو اپنی مٹھی میں لے کر پاکستان اپنی حکمرانی سدا قائم کرنے پر ہی ہوگا۔اور آج کے حکمران حکومت سے باہر بیٹھ کر آج کی اپوزیشن اور باقی لوگوں کی طرح درل کھول کر حکومت پر تنقید کریں گے اور عوامی مسائل جوں کے توں پڑے رہیں گے ۔اور پاکستان بھی ایک غریب آدمی کے گھر کی طرح چلتا رہے گا۔جس طرح ایک غریب آدمی گھراللہ تعالیٰ کے بھروسے پر ہی چلتا ہے اسی طرح پاکستان بھی پچھلے 65سال سے چلتا آیا ہے۔پاکستانی حکمرانوں نے ہر دور میں عوام سے بڑے بڑے وعدے اور دعوے کیے ہیں انھیں میں سے ایک وعدہ ا یسا بھی ہے جو ہر حکمران نے کیاہے ۔کسی حکمرانوں نے کسی وعدے کویاد رکھا ہویا کسی وعدے کو بھلا دیاہو کسی دعوے پر قائم رہا یا دستبردار ہوگیا ہو لیکن خوش قسمتی سے غربت کے خاتمے کا وعدہ کوئی نہیں بھولا ۔ اس ایک وعدے کو پورا کرنے کوشش بھی ہر حکمران نے جی جان سی کی لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے وطن عزیز میں غربت نے ہر حکمران کے دور میں ترقی کی ہے۔آپ حیران ہو رہے ہوں گے کہ میں نے غربت کی ترقی میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کی بات کیوں کی تو جناب وطن عزیزمیں جو آج تک حکمران آئے ہیں ان سب کے پاس غربت کے خاتمے کے لیے ایک ہی فارملا رہا ہے وہ یہ ہے کہ تمام غریب مار دو تو غربت اپنے آپ ختم ہو جائے گیاور اگر غریب پھر بھی زندہ ہے تو پھر میں کیوں نہ کہوں یہ غریب پر اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے اور حکمرانوں کی خواہش کے برعکس غربت نے ترقی کی ہے یعنی غریبوں کی تعدادکم ہونے کی بجائے بڑھی ہے اور پھر بھی غریب آدمی زندہ ہے تو کیا یہ غریب آدمی پر اللہ تعالیٰ کا فضل نہیں ہے؟ ہوسکے تو عوام آئندہ ووٹ صرف اس پارٹی کو دیں جس کی لیڈر شپ کی تمام جائیداد پاکستان میں اور تمام رقوم بھی پاکستانی بنکوں میں ا ور جس پارٹی کی لیڈر شپ قرآنی تعلیمات سے بہراور باعمل ہو۔ راقم پاکستانی قوم کو اس مشورے کے بعددعا گوہے کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کو سچے مسلمان حکمرانوں سے نوازے اور وطن عزیز کوتمام بیرونی اور اندرونی دشمنوں سے محفوظ رکھے اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کو صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق دے اورساری کائنات کی سب مخلوقات پر اپنی رحمت فرمائے ۔آمین

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button