ناموس اور فانوس

معاشرت،معاشیات، سیاسیات اور اخلاقیات کے درمیان بہت گہرا تعلق ہے۔جوقانون، راستے اورضابطے اخلاقیات سے متصادم ہوں انہیں ہرگز تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔دورجاہلیت میں جھوٹ بولنا معیوب نہیں سمجھا جاتاتھا کیونکہ بظاہر اس سے کسی دوسرے کوزخم بھی نہیں لگتا لیکن دین فطرت اسلام نے جھوٹ کوگناہ، اخلاقیات سے متصادم اورمتعددسماجی برائیوں کی روٹ کاز قراردیا ہے۔طاقت اوراستطاعت ہوتے ہوئے کسی انسان کو برائی سے نہ روکنا بھی برائی کے زمرے میں آئے گا۔کسی مجرمانہ سرگرمی بارے میں پیشگی اورمستند معلومات ہوتے ہوئے بروقت محکمے کواطلاع نہ کرنا اور کسی واقعہ کاعینی شاہدہوتے ہوئے اس میں ملوث ملزم کیخلاف شہادت نہ دینا بھی قابل گرفت ہے۔ جو ایس ایچ اوزشہریوں کوقاتل ڈور سے بچانے یا اہم قومی تہواروں پرامن وامان کے سلسلہ میں سکیورٹی کے تسلی بخش انتظامات نہیں کرتے انہیں معطل کردیاجاتا ہے جبکہ زیادہ تر نااہل آفیسرزفنڈز ہڑپ کرنے کے ساتھ ساتھ شہروں اورشہریو ں پرراج کرتے ہیں۔اگر کسی نے زروجواہرچوری کئے ہوں تووہ چورسخت سزا کامستحق ہے لیکن اگر کوئی بھوک کی آگ بجھانے کیلئے روٹی چوری کرے تواس صورت میں حکمران کامحاسبہ کیاجائے، راقم کے نزدیک مجرم کو سزا د ینے سے زیادہ مجرمانہ سرگرمیوں کے آگے بندباندھنا گڈ گورننس ہے۔ جس معاشرے میں قوم کی بیٹیوں کی عزتیں پامال ہوں اور اس طرح کے دلخراش اور شرمناک واقعات میں ملوث مجرمان کو تختہ دار پر لٹکا دیا جائے توبھی یہ اقدام کسی عزت دار باپ اور بھائی کے نزدیک انصاف نہیں سمجھاجائے گا کیونکہ جس بیٹی کی” ناموس” کا "فانوس” بجھا دیا جائے وہ دوبارہ کسی صورت اور کسی قیمت پر روشن نہیں ہوسکتا لہٰذاء جس طرح قوم کی بیٹیوں کی عفت و رفعت کو معاشرے میں دندناتے جنسی درندوں کی ناپاک جسارت سے بچانا حقیقی انصاف اور گڈ گورننس ہے اس طرح پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکردوست محمدمزاری کافرض تھا وہ وزارت اعلیٰ کے انتخاب کے بعد متنازعہ رولنگ دینے کی بجائے چوہدری شجاعت حسین کے مکتوب کی روشنی میں بروقت مداخلت اورانتخاب کوملتوی کرتے ہوئے مسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے دس ارکان پنجاب اسمبلی کوووٹ کاحق استعمال نہ کرنے دیتا۔ موصوف کا اپنے پاس مکتوب ہوتے ہوئے دانستہ خاموشی اختیار کرنااور مسلم لیگ (قائداعظمؒ)کے ارکان اسمبلی کوووٹ کاسٹ کرنے دینا ایک بڑاسوالیہ نشان ہے۔پنجاب اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر کی حالیہ رولنگ جمہوری روایات، اخلاقیات اور انصاف کا خون ہے، موصوف نے چوہدری شجاعت حسین کے جس مکتوب کی بنیاد پر مسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے دس ووٹ مسترد کئے وہ یقینا ووٹ کاسٹ ہونے سے قبل منظر عام پر آگیا تھا تولہٰذاء اگر دس ارکان نے چوہدری شجاعت کے حکم کیخلاف ووٹ کاسٹ کرنے کاسیاسی گناہ کیا ہے تو پھر ان دس ارکان کو ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دینا بذات خود ایک آئینی گناہ اوربدنیتی شمار ہوگا اور بالفرض اگر متنازعہ مکتوب ووٹ کاسٹ ہونے کے بعددوست محمدمزاری کے پاس پہنچا تو پھر اس صورت میں ڈپٹی سپیکر کا متنازعہ اقدام یقینا سیاسی انتقام کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ ووٹ کاسٹ ہونے کے بعد اس مکتوب کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی۔ دوسری طرف چوہدری شجاعت حسین کا مکتوب پاکستان مسلم لیگ (قائداعظمؒ) کے دس ارکان اسمبلی کو بروقت ملنا ازبس ضروری تھا جو یقینا ان میں سے کسی کے پاس ہرگز نہیں پہنچا لہٰذاء چوہدری شجاعت کے نام نہاد مکتوب اور ڈپٹی سپیکر کی ماورائے قانون رولنگ کی کوئی اخلاقی حیثیت نہیں ہے، جس طرح قومی اسمبلی میں سابقہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کی رولنگ مسترد کی گئی تھی اس طرح دوست محمدمزاری کی متنازعہ رولنگ مسترد ہوناخارج ازامکان نہیں۔
You must be logged in to post a comment.