پاکستانتازہ ترین

سپریم کورٹ نے عمران خان کے خلاف توہینِ عدالت کی درخواست نمٹا دی

اسلام آباد(پاک نیوز)سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم عمران خان کے خلاف حکومت کی توہینِ عدالت کی درخواست نمٹا دی۔ چیف جسٹس عمرعطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجربنچ نے کیس کی سماعت کی۔سماعت کے آغازمیں عدالت نے گزشتہ دن کا حکم نامہ پڑھ کر سنایا جس میں عدالت نے سیاسی پارٹیوں کو تحمل اوربردباری کا حکم دیا تھا۔ افسوس ہے کہ سپریم کورٹ میں یقین دہانی کے باوجود تحریک انصاف نے عمل نہیں کیا۔اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے عمران خان کا ڈی چوک میں پہنچنے سے متعلق ویڈیو بیان سپریم کورٹ میں پیش کیا جسے عدالت میں اسکرین پرچلایا گیا۔اشتراوصاف نے عدالت سے کہا کہ عمران خان نے سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف اپنے کارکنوں کو ڈی چوک میں پہنچنے کی ہدایت کی۔اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ تحریک انصاف کے ورکرریڈ زون میں آئے، ڈی چوک میں داخل ہوئے۔ عدالت نے خود تحریک انصاف کےجلسے کی جگہ کا تعین کیا تھا۔اشتراوصاف نے کہا کہ پی ٹی آئی نے ڈی چوک میں آ کرسرکاری اورنجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ حکومت نے آرٹیکل 245 کا اطلاق کیا۔چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ انتظامیہ کے پاس اتھارٹی ہے کہ وہ اپنی اتھارٹی قائم کرے۔ عوام کے بنیادی انسانی حقوق ہیں ہم ان کو معطل نہیں کرسکتے۔ غیرضروری ریڈ، چھاپوں سے پرہیزکیا جائے۔ ایف آئی آرکے بغیر کسی کو گرفتار نہ کیا جائے۔عدالت نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ پی ٹی آئی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھے گی۔ کتنے لوگ زخمی ہوئے؟اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے بتایا کہ 31 پولیس اہکارزخمی ہوئے۔زخمی پولیس اہلکاروں پرچیف جسٹس نے تشویش کا اظہارکرتے ہوئے کہا کہ اسی طرح قانون کے خلاف ورزیاں ہوتی رہیں تو ملک افراتفری کا شکارہوگا۔ انتظامیہ کو اختیار ہے کہ وہ قیام امن کے لیے اپنے وسائل بروئے کارلائے۔چیف جسٹس عمرعطابندیال نے حکومت کی تحریک انصاف کے خلاف قانونی کارروائی کرنے سے متعلق درخواست نمٹاتے کہا کہ ہم اس معاملے پر گائیڈ لائن دیں گے۔اٹارنی جنرل نے عدالت سے کہا کہ جب عدالت نے جگہ کا تعین کردیا تو وہ وہاں کیوں نہیں گئے جس پرچیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ آپ کی بات درست ہے ہم اس معاملے کو دیکھیں گے۔ لیکن آپ کی ذمہ داری کیا بنتی تھی۔عدالت نے کہا کہ معاملات ہاتھ سے باہرنکل چکے ہیں۔ ضروری ہوا تو ہم حکم جاری کریں گے۔ معاشرے میں سیاسی تقسیم بڑھ گیا ہے۔ ہم نہیں سمجھتے کہ اب اس پرکوئی حکم دیا جائے۔ عام لوگ اس میں ملوث ہیں۔ ان لوگوں کا کوئی ایجنڈا نہیں۔سپریم کورٹ کے لارجربنچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مظاہرعلی نقوی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button