تازہ ترینپروفیسر رفعت مظہرکالم

مریم سپیڈ

محترمہ مریم نواز کے سر پر پنجاب حکومت کی وزارتِ اعلیٰ کاتاج سج گیا۔ اُنہوں نے اسمبلی میں بطور قائدِایوان جو خطاب فرمایا اُس کا خلاصہ کچھ یوں ہے کہ پنجاب کوبزنس حَب بنایا جائے گا، ہر ضلعے میں سٹیٹ آف دی آرٹ ہسپتال قائم کیا جائے گا، 5آئی ٹی سینٹر قائم کیے جائیں گے، لیپ ٹاپس سکیم کودوبارہ شروع کیا جائے گا، لاہور میں مفت وائی فائی سکیم اور خواتین کے لیے محفوض ماحول فراہم کیاجائے گا۔ ذہین طلباء کوپنجاب حکومت کے خرچ پراعلیٰ تعلیم دلوائی جائے گی اور سرکاری سکولوں کا معیار بڑھایا جائے گا، ایسا انتظام کیا جائے گاکہ کوئی بچہ وسائل کی کمی کے باعث سکول سے باہر نہ ہو۔ محترمہ نے نوجوانوں کے لیے الیکٹرک موٹربائیکس، یوتھ لون، سپیشل بچوں کے لیے اعلیٰ سکول اور ہرضلعے میں دانش سکولوں کا اعلان بھی کیا۔ اِس کے علاوہ سستے بازاروں کی مانیٹرنگ اور کرپشن کی روک تھام کے لیے سسٹم کے قیام کااعلان بھی اُن کی ترجیحات میں شامل ہے۔ رمضان شریف میں 75 لاکھ رمضان پیکجزضرورت مندوں کے گھروں تک پہنچائے جائیں گے۔ اُنہوں نے فرمایا کہ وہ حصولِ مقصد کے لیے صبح ومسا تگ ودَو کریں گی۔ ہمیں یقین ہے کہ جذبہئ خدمت سے سرشار مریم نواز اگلے 5سالوں میں کوئی کسر اُٹھانہ رکھیں گی۔ وہ اگر پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں معجزانہ کارکردگی دکھائیں گی تو تبھی نوازلیگ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرپائے گی۔ یقیناََ یہ ناممکنات کی حدتک کٹھن کام ہے جس کابِیڑا مریم نوازنے اُٹھایا ہے۔ وجہ اُس کی یہ کہ اِس وقت وہی طاقتیں پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے کی تگ ودَو میں ہیں جنہوں نے 2014ء کے ڈی چوک اسلام آباد کے دھرنے میں سول نافرمانی کااعلان کیا۔ آج جیل میں بیٹھا ایک شخص آئی ایم ایف کو پاکستان کو قرض دینے سے منع کررہا ہے۔ اُس کاآئی ایم ایف کو لکھاگیا خط منظرِعام پر آچکا جس کو پڑھ کر کوئی بھی محبِ وطن شخص اُس قیدی کو محبِ وطن نہیں کہہ سکتا۔ اُس کے پیروکاروں سے سوال ہے کہ اگراُس کے لکھے گئے خط کی بناپر پاکستان کوقرض دینے سے انکار کردیا جاتا ہے تو پھر کیا ہوگا؟۔ یقیناََ پاکستان ڈیفالٹ کرجائے گا۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان کو سری لنکا بنانے اور اس کے 4 ٹکڑے ہونے جیسی منحوس باتیں وہ خود کرتا رہا ہے اور شاید اُس کا ایجنڈا بھی یہی ہے۔ کیا وہ یہی چاہتا ہے کہ
یونہی سوئی رہے شَب چادرِظلمت اوڑھے
کوئی جگنو، کوئی تارا نہ چمکنے پائے
حیرت مگریہ کہ موجودہ عام انتخابات میں تحریکِ انصاف کے آزاد اُمیدواروں کو کثیر تعداد میں ووٹ ملے حالانکہ اُس کے ساڑھے تین سالہ دَورِحکومت میں معاشی ترقی ہوئی نہ کوئی میگاپروجیکٹ وجود میں آیا۔ یہی نہیں بلکہ اُس کے دَورمیں 25ارب ڈالر قرض لیاگیا جو پاکستان کے کُل قرضے کا 76فیصد تھا۔ پاکستان کو ڈیفالٹ کے کنارے تک پہنچانے والا وہی اور مہنگائی کو آسمان کی وسعتوں تک پہنچانے والابھی وہی لیکن الزام سارا نوازلیگ کی 16ماہ کی حکومت پر۔ ہم نے کبھی سوشل میڈیاکے پراپیگنڈے پر کان نہیں دھرے لیکن آج ماننا ہی پڑتاہے کہ سوشل میڈیا کا عفریت نوازلیگ کی بہت سے مقبولیت کوچاٹ چکا۔ تاریخ کا مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ ایسی مصنوعی مقبولیت ہمیشہ انسان کو قعرِ مذلت میں گراتی ہے۔ جرمنی کی مثال ہمارے سامنے ہے جہاں ہٹلرکی مقبولیت کایہ عالم تھا کہ جوچند لوگ اُس کے مخالف تھے اُنہیں ملک دشمن اور غدار ٹھہرایا گیا۔ پھر ہوا یوں کہ شکست خوردہ ہٹلرکو خودکُشی کرنی پڑی اور اُس کے حواری جب تک زندہ رہے اِسی داغ کے ساتھ اپنے زخم چاٹتے رہے۔ہم نے کبھی بانی تحریکِ انصاف کوغدار کہانہ سمجھا لیکن 2014 ء سے اب تک اُس کے اعمال گواہی دیتے ہیں کہ اُسے ملک سے ہمدردی ہے نہ مجبورومقہور قوم سے۔
مریم نوازکے عزمِ صمیم کے باوجود یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ اُس کی راہ میں قدم قدم پر رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی اور اُس کی پاشکستگی کے لیے ہرعملی قدم اُٹھایا جائے گا۔ یوں محسوس ہوتاہے کہ جیسے تحریکِ انصاف ایک اور ”9مئی“ کی تگ ودَو میں ہے۔ پنجاب اسمبلی میں پہلے ہی دن طوفانِ بدتمیزی بپاکیا گیا۔ یہی کچھ 29مئی کو پارلیمنٹ کے افتتاہی اجلاس میں ہوا لیکن پختونخوا اسمبلی میں جہاں تحریکِ انصاف کے آزاد ارکان کی غالب اکثریت ہے وہاں تویہ عالم تھا کہ تحریکِ انصاف کے ارکان اسمبلی سے باہر تھے اور اُن کے سارے پیروکار زبردستی اندر گھُس گئے۔ یہ عجب نظارہ بھی پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کوملا۔ دراصل اُن پیروکاروں کو علم تھا کہ خیبرپختونخوا کے وہ بلاشرکتِ غیرے مالک ہیں، اُنہیں پوچھنے والا کوئی نہیں اِس لیے جو اُن کے مَن میں آیا، وہی کیا۔ ویسے بھی بانی پی ٹی آئی نے پختوبخوا حکومت کی باگ ڈور جس شخص کے ہاتھ میں تھمائی ہے وہ خود دہشت کی علامت ہے۔ اُس نے اپنے پہلے ہی خطاب میں پولیس کو یہ دھمکی دی کہ ایک ہفتے کے اندر تمام FIRs ختم کر دو ورنہ سزا کے لیے تیار ہوجاؤ۔ اِس لیے یہ خوف دامن گیر کہ پختونخوا کا یہ ”اَکٹھ“ ملکی سلامتی کے خلاف متحرک رہے گا۔ میاں شہبازشریف کو آج بھی شہبازسپیڈ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اگر مریم نواز اُن سے ایک قدم آگے بڑھ کر ڈبل سپیڈ سے کام کریں گی تو ان شاء اللہ کامیابی اُن کے قدم چومے گی اور ہربَدباطن خس وخاشاک کی طرح بہہ جائے گا۔
مریم نوازنے اپنے خطاب میں خواتین کے حقوق کی حفاظت کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ اُنہوں نے بطور وزیرِاعلیٰ ابھی حلف بھی نہیں اُٹھایا تھا کہ اچھرہ میں ایک خاتون کے ساتھ دردناک واقعہ پیش آیا۔ مریم صاحبہ نے نہ صرف فوری طورپر اس کی مذمت کی بلکہ نگران وزیرِاعلیٰ محسن نقوی کو اِس کی تحقیقات کے لیے بھی کہا۔ ہوا یوں کہ ایک خاتون اور اُس کا شوہر اچھرہ میں شاپنگ کے لیے گئے۔ اُس خاتون کے لباس پر عربی کے الفاظ لکھے ہوئے تھے۔ وہاں موجود ایک مولوی صاحب نے شور مچادیا کہ خاتون کے لباس پر قُرآنی الفاظ لکھے ہوئے ہیں اور وہ توہینِ قُرآن کی مرتکب ہوئی ہے حالانکہ وہ صرف عربی زبان میں لکھے گئے الفاظ تھے جن کا قرآنِ مجید وفُرقانِ حمید سے کوئی تعلق نہیں تھا۔جب مشتعل ہجوم اکٹھا ہوگیا تواُس خاتون نے ایک دُکان میں پناہ لی۔ اِسی دوران ASP سیدہ شہربانو نقوی وہاں پہنچ گئیں جنہوں نے کمال جرأت اور مہارت سے اُس خاتون کومشتعل ہجوم سے نکالا اور پولیس سٹیشن لے آئی۔ بعد میں مشتعل ہجوم کے کہنے پر اُس خاتون سے معافی بھی منگوائی گئی حالانکہ معافی تو اُن اُجڈ اور گنوار لوگوں کو مانگنی چاہیے تھی جو عربی کے ہرلفظ کو قُرآنی لفظ سمجھتے ہیں۔ سیدہ شہر بانو سے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے GHQ راولپنڈی میں ملاقات کی اور اُس کی بہادری کو سراہا۔سعودی عرب کے سفیر نے بھی سیدہ شہربانو سے ملاقات کی اور اُنہیں سعودی عرب کے دَورے کی دعوت دی۔ پاکستان میں پہلے بھی ایسے کئی واقعات جنم لے چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ آخر ہماری حکومت کہاں سوئی ہوئی ہے اور ایسے لوگوں کو قرارواقعی سزا کیوں نہیں دی جاتی۔

Related Articles

Back to top button