نیمسوف کا سیاسی قتل

انسانی تاریخ بہت سے تلخ حقائق سے بھری ہوئی ہے۔ انسان نے اپنے دورِ حکومت کو وسعت دینے کے لئے ہر ہتھکنڈے کا استعمال کیا۔ کبھی غیروں کا خون کیا اور کبھی اپنوں کا۔ کبھی الزام تراشی تک محدود رہا اور کبھی انصاف کا داعی بن کر لاکھوں انسانوں کا خون کر گیا۔ اس طرح کے واقعات انسانی تاریخ کی ابتدا سے شروع ہوئے اور ابھی تک جاری ہیں۔ کوئی بھی انسان جسے کرسی ملی اس نے اسکا خوب فائدہ اٹھایا۔ خواہ وہ کرسی صدارت کی ہو یا پھر دفتر کے چپڑاسی کی۔ انسان کے اندر چھپے شیطان نے انسان کو گمراہ کرنے کی بھرپور کوشش کی اور وہ بڑی حد تک کامیاب رہا۔ کرسی کی یہ جنگ تا قیا مت جاری رہے گی۔ روس میں اسی جنگ کی بنیاد رکھ دی گئی جب گزشتہ جمعہ کی شب کریملن میں دریائے ماسکو کے پل پر روسی نائب وزیرِاعظم بورس نیمسوف کو قتل کر دیا گیا۔
بورس نیمسوف ناصرف روس کے نائب وزیرِ اعظم تھے بلکہ ایک اپوزیشن لیڈر کی حیثیت سے روسی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے تھے۔ نیمسوف کریمیا اور یوکرائن میں روسی جارحیت کے سخت مخالف تھے اور ایسے حالات میں ثابت قدمی دکھا رہے تھے جب روسی حکومت کے خلاف بولنے والوں کو جیل بھیج دیا جاتا یا پھر ملک بدر کیا جا رہا تھا۔ روسی صدر ولادی میر پوٹن کا پندرہ سالہ دور سیاسی قیدیوں اور ملک بدریوں سے بھرا پڑا ہے۔ جہاں ولادی میر پوٹن روسی قوم کے ایک ہیرو بن کر ابھرے ہیں وہیں ان کی قیادت میں مخالفین پر کریک ڈاؤن کا دھبہ بھی نمایاں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیمسوف کا قتل ہونا روسی حکومت کی طرف شکوک و شبہات پیدا کر رہا ہے۔ اپوزیشن نے اس قتل کو سیاسی قتل کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اس وقت جب روسی فوجی کریمیا پر قبضہ کر چکے ہیں اور یوکرائن میں باغیوں کو اکسا کر ان باغیوں کی پوری امداد کر رہے ہیں۔ یعنی روسی حکومت متواتر کامیابیاں حاصل کر رہی ہے اس قتل کا ہونا ایک سوال کو جنم دے رہا ہے کہ آخر اس قتل سے کسے فائد ہو سکتا ہے؟ اپوزیشن کی طرف سے اس قتل کو روسی حکومتی پارٹی سے جوڑنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے لیکن حقیقت پسندانہ نظر سے غور کیا جائے تو ولادی میر پوٹن کی حمایت میں روس کی اکثریت ہے اور وہ ولادی میر پوٹن کی قیادت اور اس کی متواتر کامیوبیوں سے متاثر ہیں جس کی جہ سے روسی ایک بار پھر سے ’’گریٹر رشیا‘‘ یا دوسرے لفظوں میں دنیا پر قبضے کے خواب دیکھنے لگے ہیں۔ ان سب حقائق کے تناظر میں ولادی میر پوٹن کو اس قتل کا فائدہ کیا خاک ہوگا الٹا روس میں اس کے مخالف جذبات پروان چڑھیں گے اور اگر حالات کو مخالفین کے طرف سے غلط رنگ دینے کی کوشش کی گئی تو ولادی میر پوٹن کے مخالف موومنٹ شروع ہو سکتی ہے جس کا اظہار سابق سوویت صدر بورس یلسن نے واضح الفاظ میں کر دیا ہے۔ یلسن کا اس قتل کے بارے میں کہنا ہے کہ اس قتل کے بارے میں قبل از وقت کہنا بہتر نہیں ہو گا لگتا ہے ولادی میر پوٹن کو ہٹانا پڑے گا۔
دوسرا شک ان لوگوں پر کیا جا سکتا ہے جو روس یا روسی حکومت کے مخالف ہیں۔ جن کی آنکھ میں ولادی میر پوٹن کھٹکتا ہے۔ وہ لوگ جن کی سیاست کو روسی پراپیگنڈے نے رگید کر رکھ دیا۔ وہ لوگ جنہوں نے روس پر معاشی پابندیاں لگائیں اور عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں گرا کر روسی معیشت کو نقصان پہنچانا چاہا۔ ہو سکتا ہے ان لوگوں نے کامیابی نہ ملنے پر روس کے اندرونی حالات کو خراب کرنے کی کوشش کی ہو۔ امریکہ بارہا یہ بیان دے چکا ہے کہ ہم یوکرائن کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ جمعہ کی شب نیمسوف کے قتل کے بعد باراک اوباما نے اس کی شدید مذمت کی اور امریکن میڈیا نے اس قتل کو حکومتی پارٹی سے جوڑنے کی پوری کوشش کی۔ یوکرائن اور امریکہ کو روسی حملے کے بعد شدید نقصان اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہو سکتا ولادی میر پوٹن کے مخالفین نے روس میں خانہ جنگی سا ماحول پیدا کرانے کے لئے نیمسوف کو قتل کیا ہو۔ اس سے روس میں نیمسوف کے روسی جارحیت مخالف نظریات کو بھی تقویت مل سکتی ہے اور اگر حالات کو خراب کر دیا جائے تو ولادی میر پوٹن کے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑ سکتے ہیں۔ روسی معیشت کو پہلے ہی پابندیوں کا سامنا ہے اگر حالات دگرگوں ہوتے ہیں تو روسی معیشت کو شدید دھچکا لگے گا۔ پوٹن کے حامیوں میں اس حوالے سے شدید تشویش ہے۔ جہاں اس قتل نے بہت سارے شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے وہیں اس قتل کے حوالے سے ایک اور حقیقت سامنے آئی ہے کہ بورس نیمسوف کریملن میں دریائے ماسکو کے پل پر ایک یوکرائنی لڑکی سے ملاقات کررہے تھے کہ ایک کار سے ان کی پشت پر چار گولیاں فائز کی گئیں جس کیوجہ سے وہ جانبر نہ ہو سکے۔ اس قتل کے فوراً بعد وہ یوکرائنی لڑکی بذریعہ ہوائی جہاز اسقاطِ حمل کرانے کے لئے سوئٹزرلینڈ چلی گئی۔ اس حوالے سے دو قسم کی باتیں کی جارہی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ نیمتسوف کا اس لڑکی سے معاشقہ ہو۔ کیونکہ نیمسوف اکثر و بیشتر یوکرائن تو جاتے رہتے تھے اور شاید یہ قتل اسی رشتے میں گڑبڑ کا شاخسانہ ہو۔ دوسری کہانی جو اس حوالے سے گھڑی جا رہی ہے وہ یہ ہے کہ شاید یوکرائن نے اس لڑکی کو رقم کے عوض خرید لیا ہو اور ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نیمسوف کو قتل کیا گیا ہو۔
اس قتل کے بعد جنم لینے والے شکوک و شبہات روسی حالات کو خراب کر سکتے ہیں ہو سکتا ہے کہ واقعی ولادی میر پوٹن نے نیمسوف کے کانٹے کو ہمیشہ کے لئے راہ سے ہٹایا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ یوکرائنی اور امریکی سیاست کام کر گئی ہو۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس یوکرائنی لڑکی سے جڑی کہانی میں حقائق ہوں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی عین ممکن ہے کہ جو ہم سوچ رہے ہیں ویسا نہ ہو بلکہ اس قتل کے پسِ پشت کسی اور کا ہاتھ ہو۔ روس میں اس قتل کے بعد حالات خراب ہونے کا اندیشہ ہے ۔ میڈیا پر ہمیشہ کی طرح جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ دکھا دکھا اور حقائق کو مسخ کیا جائے گا اور نیمسوف بھی ان ان گنت سیاسی مقتولین کی صف میں جا کھڑا ہوجائے گا جن کے قتل کو سیاست کی نذر کر کے قصہ پارینہ بنا دیا گیا۔
You must be logged in to post a comment.