ایکسکیوزمیتازہ ترینکالم

بلاول بھٹوزرداری

میرے نصیب تو اُسی دن ہی کھل گئے تھے جس دن میں نے بھٹو خاندان میںآنکھ کھولی تھی۔ میرے نانا ذوالفقار علی بھٹو شہیدپاکستان کی تاریخ کے سب سے کامیاب ترین سیاستدان اور وزیر اعظم تھے میری والدہ بے نظیر بھٹو شہیدپاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں ۔ میرے پاپا آصف علی زرداری جب تک میری والدہ حیا ت تھیں وہ سیاست سے بالکل دور رہے لیکن میری والدہ کی شہادت بعد انہوں نے جس طرح سیاست میں انٹری لی ہے وہ اپنی مثال آپ ہیں آج وہ صدر پاکستان بھی ہیں اور پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کے سرپرست اعلیٰ بھی اور یہ انکی ماہرانہ سیاست ہی ہے کہ وہ دو بڑے عہدوں کا مزہ لوٹ ر ہے ہیں لیکن کسی میں اتنی جرات نہیں کہ وہ ان سے کوئی بھی عہدہ چھین سکے کیونکہ میرے پاپا دنیا کے عظیم ترین سیاستدانوں میں سے ایک ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت کو وجود میں آئے ہوئے تقریباً ساڑھے چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ کوئی بھی جمہوری حکومت اتنے لمبے عرصے تک برقرار رہی ہواور یہ سب کچھ ممکن ہو ا صرف اور صرف میرے پاپا آصف علی زرداری کی ماہرانہ سیاست اور تجربے کی وجہ سے۔ اب تو یہ سب کو تسلیم کر لینا چاہیے کہ پاکستان کے سیاسی میدان میں پا پا کی ٹکر کا کوئی بھی سیاسی کھلاڑی موجود نہیں ہے کس موقع پر کونسی چال چلنی ہے یہ میرے پاپا سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔میری یہ خوش نصیبی ہے کہ میں نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز پاپا کے زیر سائے شروع کیا ہے اور دن بدن میں انکے سیاسی ماہرانہ تجربات سے مستفید ہورہا ہوں ۔میں اپنی والدہ بے نظیر بھٹو کی وفات کے بعد مایوس ہوگیا تھا کیونکہ مجھے میرا سیاسی مستقبل ختم ہوتا نظر آرہا تھا لیکن میں شکرگزار ہوں اپنے پا پا دی گریٹ آصف علی زرداری کا جنہوں نے سیاست میں آکر جس طرح پرفارم کیا ہے اس سے میرا مستقبل بھی روشن ہوگیا اب میں پر امید ہوں کے مستقبل میں بلاول بھٹو زرداری پا کستان کا صدر یاوزیر اعظم ضرور بنے گا کیونکہ میرے پا پا ہیں پا پا دی گریٹ۔
حمزہ شہباز شریف :
مجھے آج بھی وہ دن اچھی طرح یاد ہے جب پاپا نے مجھے فون کرکے یہ اطلاع دی تھی کہ ہمارا بُرا قت شروع ہو چکا ہے اور کسی بھی قت ہمارے ساتھ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔انہوں نے تلقین کی کہ اب مجھے ہمت اور بہادری کا مظاہرہ کرنا ہوگا کیونکہ شریف خاندان کے سارے کاروبار اور سیاست کا بوجھ میرے نازک کندھوں پر آنے والا ہے۔یہ اُس قت کی بات ہے جب مشرف حکومت نے ہمارے پورے خاندان کو ملک بدر کردیا تھااور تقریباً آٹھ سال تک شریف فیملی کو پاکستان میں داخل نہیں ہونے دیا گیا تھا ۔اسی دوران ایک ایسا وقت بھی آیا جب میرے دادا میاں شریف وفات پاگئے اور ان کی میت کو کاندھا دینے والا میرے سوا خاندان کا کوئی دوسرا فرد موجود نہیں تھا وہ وقت میرے لئے بڑا ہی اذیت ناک تھا لیکن آزمائش کی اس گھڑی میں میرے لیڈر نواز شریف اور میرے پا پا دی گریٹ شہباز شریف نے میری بھرپور رہنمائی کی مجھے حوصلہ دیا اور ہمت بڑھائی جن کی وجہ سے میں تمام سیاسی اور کاروباری معاملات کو باخوبی انجام دینے میں کامیاب ہوسکااور اسطرح حادثاتی طورپر میں بھی سیاست میںآگیا اور یہ سب ممکن ہو امیرے پاپا دی گریٹ کی وجہ سے جنہوں نے ہر قدم پر میری رہنمائی کی ۔ پا پا نے مجھے سیاسی داؤ پیچ سکھانے کے ساتھ ساتھ یہ گُر بھی سکھایا کہ کیسے زیادہ سے زیادہ شادیا ں کی جاسکتی ہیں اور پھر کیسے ان سے چھٹکارہ حاصل کیا جاتا ہے لیکن یہ بات الگ ہے کہ آج تک ایک کامیاب ازدواجی زندگی گزارنے میں نہ پاپاکامیاب ہو سکے ہیں اور نہ میں لیکن مجھے ایک کامیاب سیاست دان بنانے میں انہوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی یہ میرے پا پا کی محنت اور لگن کا نتیجہ ہے کہ آج میرا شمار بھی پاکستان کے کامیاب سیاستدانوں میں ہوتاہے ورنہ میرا مزاج تو سیاست کے بالکل برعکس تھا۔میرے پاپا وزیراعلیٰ بن کر نہیں بلکہ خادم اعلیٰ بن کر پاکستا ن کے عوام کی خدمت کررہے ہیں ۔اگر آج پاکستان میں طالب علموں کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے سکول نہ سہی کتابیں نہ سہی اور فیس کے لئے پیسے نہ سہی لیکن اس کے باوجود آپ کو ہر طالب علم کے ہاتھ میں لیپ ٹاپ ضرورنظر آئیگا اور یہ وہ عظیم کارنامہ ہے جو پا پا نے پاکستانی قوم کے لئے سرانجام دیاہے۔پاپا کے ایسے ہی کارناموں نے پاپا کو پاکستان کے عوام کا پسندیدہ لیڈر بنا دیاہے اور پاپا کی عوام میںیہی پسنددیدگی مستقبل میں مجھے میاں حمزہ شہباز شریف کو انشاء اﷲ وزیراعظم بنائے گی۔آئی لو مائی پاپا کیونکہ میرے پا پا ہیں پاپا دی گریٹ۔
مونس الہی :
کبھی کبھی میرے دل میں خیال آتا ہے اگر میں پرویز الہی کا بیٹا نہ ہوتا تو میرا کیا ہوتا ہمارے مخالفین نے جس طرح بینک آف پنجاب کے کیس میں مجھے پھنسایا تھا اگر میرے پا پا نہ ہوتے تو میںآج کسی جیل کی کال کوٹھری میں پڑا سڑ رہاہوتا لیکن میرے گریٹ پا پا نے بڑی چالاکی کے ساتھ اپنا سیاسی اثر روسوخ استعمال کرکے مجھے اس کیس میں سے ایسے باہر نکال لیا جیسے مکھن میں سے بال اور میرا سیاسی مستقبل جو شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہورہا تھا اسے بچا لیا۔ میرے پاپا بہت اچھے ہیں وہ مجھ سے جو بھی وعدہ کرتے ہیں اسے ہمیشہ پورا کرتے ہیں اب میرے پا پا دی گریٹ نے مجھ سے یہ وعدہ کیا ہے کہ چاہے وہ پاکستان کے ڈپٹی وزیراعظم ہی سہی لیکن مستقبل میں وہ مجھے پاکستان کا وزیراعظم بنا کر رہیں گے مجھے میرے پاپا پر فخر ہے کیونکہ میر ے پاپاہیں پا پا دی گریٹ۔
ارسلان افتخار چوہدری:
میرے نام سے آپ کو پتہ تو چل ہی گیا ہوگا کہ میں کس گریٹ پاپا کا بیٹا ہوں۔ ایک زمانہ تھا جب میں اپنے پا پا کا بہت لاڈلاتھا میرے پا پا مجھ سے بہت پیار کرتے تھے وہ میری ہر خواہش کو اﷲدین کے جن کی طرح آناً فاناً ہی پوری کر دیاکرتے تھے ۔میرے پاپا دنیا کے عظیم ترین پاپا ہیں انہوں نے میری وہ خواہشات بھی پوری کیں جن کو پوری کرنا ان کے بس میں بھی نہ تھا ۔ میں نے جو بننا چاہا وہ بن گیا کبھی ڈاکٹر تو کبھی پولیس آفیسر۔ میں نے جس طرح اپنی مرضی کے مطابق محکمے بدلیں ہیں اور جیسے میں نے ترقی کی ہے ایسی مثال تو شاید بادشاہوں اور انکے لاڈلے بیٹوں کی کہانیوں میں بھی نہیں ملے گی۔ پا پا کی طرح میرے پا پا کے چند دوست بھی مجھ پر بڑے مہربان رہے ہیں جن کی بدولت میں دنیا کے ایسے ایسے ممالک کی سیر کرچکا ہوں جہاں صر ف دنیا کے امیر سے امیر ترین لوگ ہی جاسکتے ہیں۔میرے پا پا دی گریٹ نے تو اس دنیا کو ہی میرے لئے جنت بنا دیا تھا لیکن اب کچھ عرصے سے ہمارے مخالفین ہمارے دشمن میرے اور میرے پاپاکے پیار سے جیلس ہو نے لگے ہیں اور انہوں نے میرے اپر بے بنیاد کرپشن کے الزامات لگاکر مجھے میرے پاپا سے دور کردیاہے لیکن ا س کے باوجود بھی میں اپنے آپ کو بہت خوش نصیب سمجھتا ہوں کیونکہ مجھے عدالتوں میں بھی وی آئی پی پرٹوکول مل رہا ہے ا ور یہاں تک کہ میرے کیس کاکمیشن بھی میری ہی مرضی کے مطابق بنا یا جاتاہے۔ جبکہ دوسری طر ف ایک سابق وزیراعظم کا بیٹا جو خود بھی پارلیمانی ممبر ہوتا ہے اسے ہتھ کڑی لگا کر عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔ مجھے ملنے والی یہ عزت میرے پا پا کی بدولت ہے اور جب تک ان کی شفقت کا ہاتھ میرے سرپر قائم و دائم ہے تب تک کوئی میرا بال بھی بیکانہیں کرسکتاکیونکہ میرے پاپا ہیں پا پا دی گریٹ۔
قیانوس خان :
میں ایک نہائت ہی غریب گھر انے سے تعلق رکھتاہوں میر ابا پ کباڑکا کام کرتا ہے اور میں اپنے باپ کی کام میں مدد کرتا ہوں لیکن مجھے تعلیم حاصل کرنے کا جنون کی حد تک شوق ہے جبکہ میرا باپ میری پڑھائی سے خوش نہیں ہے حالانکہ میں نے پورے پاکستان میں جولائی2012میں،میں نے میڑک کے امتحان میں سکینڈڈویژن حاصل کی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ میں زیادہ سے زیادہ تعلیم حاصل کروں تاکہ میں بھی پاکستان کا صدر ،وزیراعظم یا پھر کسی اہم عہدے پر پاکستان کے لئے اپنے فرائض انجام دے سکوں لیکن میرے باپ کا سوچنا ہے کہ میں جتنی اعلی ٰ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرلوں میرا یہ خواب پورا نہیں ہوسکتا کیونکہ آج جو پاکستان کے بادشاہ اور وزیر ہیں کل کو انہیں کی اولادیں ہونگی جبکہ میں ایک کباڑئیے کا بیٹا ہوں اور کباڑیا ہی بنوں گا کیونکہ اسی کا ہوتا ہے دام جس کے پاس ہوتا ہے باپ کا بڑا نام ۔جن کے پاپاہوتے ہیں پاپادی گریٹ

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button