فیصل آباد﴿ بیورو رپورٹ ﴾ دنیا کے کسی ملک میں میڈیا اتنا آزاد نہیں جتنا پاکستان میں ہے لیکن اس آزادی کا استعمال ذمہ داری اور ملک کے مفادات کے تابع ہونا چاہئے کیونکہ بھارتی آئین مطابق آزادی صحافت وآزادی اظہار پر آج بھی حکومتی پابندیاںعائد ہیں ۔ پاکستان میں دنیا کے 90ممالک کی طرح پریس کونسل آف پاکستان قائم کرکے اس میں صحافتی و وکلائ تنظیموں‘ میڈیا مالکان‘ اراکین اسمبلی‘ ایڈیٹرز‘ کارکن صحافیوں سمیت سول سوسائٹی کے نمائندوں کو شامل کرتے ہوئے ان کی تجاویز اور تعمیری کردار کے ذریعے میڈیا کو مزید ذمہ دار‘ قابل بھروسہ ‘ قومی اُمنگوں اور مفادات کا امین بنانے کی بنیاد ڈال دی گئی ہے جس کے ذریعے خوداحتسابی کا صحت مند کلچر پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ یہ باتیں پریس کونسل آف پاکستان کے چیئرمین جسٹس ﴿ر﴾ راجہ شفقت عباسی نے زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے نیو سینٹ ہال میں ہائر ایجوکیشن کمیشن اسلام آباد اور یونیورسٹی کے شعبہ تعلقات عامہ و مطبوعات کے زیراہتمام ’’صحافتی اخلاقیات‘‘ پر مبنی ایک روزہ سیمینار سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے بتایا کہ بیشتر ممالک نے کئی دہائیاں پہلے سے اپنے ہاں پریس کونسلز قائم کررکھی ہیں تاکہ معاشروں‘ حکومتوں اور اداروں کا احتساب کرنے والے بھی خود کو قومی مفاد اور اخلاقیات کا پابند بناسکیں۔ جسٹس شفقت عباسی نے بتایا کہ کونسل میں تمام سٹیک ہولڈرزکا نمائندہ انکوائری کمیشن اور انکوائری کمیٹی قائم کر دی گئی ہے تاکہ پاکستان کے عام شہری سمیت میڈیا مالکان‘ کارکن صحافیوں اور ایڈیٹرزکی شکایات کا مل بیٹھ کر حل تلاش کیا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ الیکٹرانک میڈیا کے کچھ پروگرامز کے شرکائ کی طرف سے آئین‘ قانون ‘ عدلیہ اور پارلیمنٹ کے حوالے سے قابل اعتراض کلمات کی براہ راست نشریات کو ملک کی اساس کے خلاف حملہ خیال کرتے ہیں تاہم میڈیا اپنے ارتقائی مراحل سے نکل کر بتدریج بہتری کی طرف گامزن ہے ۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر اقرار احمد خاں ﴿ستارۂ امتیاز﴾ نے بتایاکہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصہ میں پاکستانی یونیورسٹیوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی سرپرستی میں مثالی ترقی کی ہے جبکہ آج پارلیمنٹ میں ایک خاتون رکن اسمبلی کے ذریعے HECکے آرڈیننس میں معمولی تبدیلیوں کے ذریعے اس کی خودمختاری اور کردار کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ڈاکٹر اقرار احمد خاں نے یونیورسٹی کی کارکردگی اور خود کو پریس کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرتے ہوئے بتایا کہ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی درجہ بندی میں زرعی یونیورسٹی سب سے زیادہ کوالٹی سکور کی حامل دانش گاہ قرار دی گئی ہے جہاں وسیع گنجائش کا حامل کمیونٹی کالج قائم کر دیا گیاہے جس میں درجنوں ڈپلومہ اور سرٹیفکیٹ کورسز میں اُمیدواروں کو داخلہ دیا جائے گا۔ انہوں نے بتایاکہ جامعہ زرعیہ اعلیٰ تعلیم کا واحد ادارہ ہے جس میں پاکستان کے ہر ضلع کے امیدوار کو اسی ضلع سے داخلہ کے خواہش مندوں میں سے میرٹ کی بنیاد پر داخلہ دیا جاتا ہے ۔ا صوبے کے دو درجن سے زائد اضلاع میں مقامی طور پر زمینداروں کی رہنمائی کیلئے کال سنٹر قائم کر دیئے گئے ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور کے ڈین سوشل سائنسز اور نامور ماہر ابلاغیات پروفیسرڈاکٹر مغیث الدین شیخ نے پریس کونسل آف پاکستان کے قیام کو خوش آئندقرار دیتے ہوئے بتایا کہ صحافتی اُمور میں ذمہ داری کے ساتھ سچ سامنے لایا جانا چاہئے ۔ انہوں نے بتایا کہ ایک ٹی وی چینل یا اخبار نکالتے وقت مالکان کے اذہان و قلوب میں کمرشلزم اور حکومتی مراعات حاوی ہوتے ہیں جبکہ کارکن صحافیوں کے مسائل کا تعلق تنخواہوں اور فرائض کی ادائیگی میں درپیش مشکلات سے ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تہذیب یافتہ اقوام کے ٹی وی چینلز میں قوم کا مورال پست کرنے پر مبنی مواد شائع نہیں کیا جاتا جبکہ ہمارے ہاں خبرنامہ ایک کرائم نامہ کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ انہوں نے فیصل آباد کے صحافیوں کیلئے ملک و بیرون ملک تربیتی ورکشاپس کے انعقاد کا بھی مطالبہ کیا۔
You must be logged in to post a comment.