ایکسکیوزمیتازہ ترینکالم

قاتل

kafaitمحمد عثمان ضلع بہاولپور کے ایک چھوٹے سے قصبے قائم پور کا ایک نہائیت ہی ذہین اور محنتی طالب علم ہے دس سال کی عمر میں ہی کمپیوٹر کے استعمال میں وہ ماہر ہے جسکی تعریف پور ا سکول کرتا ہے ا سکول کے ٹیچرز اور اسٹوڈنٹ سبھی کا وہ چہیتا ہے کمپیوٹر کے علاوہ دینی ،معاشرتی، اور سیاسی معلومات بھی اچھی خاصی رکھتا ہے میں عثمان کے بارے میں اتنا سب کچھ اس لیئے جانتا ہوں کہ وہ میرے بچپن کے دوست محمدکامران کا بیٹاہے پہلی بار جب میری ملاقات نومبر 2008میں عثمان سے ہوئی تب کامران نے مجھ سے کہا کہ میں عثمان کی ذہانت کا امتحان لوں تب میں نے عثمان سے جنرل نالج کے چند سوال پوچھے اور میں یہ جان کر حیران ہوا کہ اُسے یہ بھی پتہ تھا کہ اس وقت اقوام متحدہ کا سکیریٹری جنرل بانکی مون ہے اور اس سے پہلے کوفی عنان تھا جس نے 2007ء میں خود کشی کر لی تھی پاکستان کے علاوہ کئی اور دوسرے ملکوں کے صدر زاور دوسرے وزراء کے نام بھی جانتا تھا اسی دوران میرے موبائل فون پر رنگ ہوئی میں نے کال رسیو کرنے کے لیئے جب اپنا آئی فون نکالا تو عثمان نے خواہش ظاہر کی کہ وہ میرا فون دیکھنا چاہتا ہے میں نے اپنا آئی فون اسے دے دیا میں نے دیکھا کہ اس نے آئی فون ایسے استعمال کیا جیسے وہ پہلے بھی آئی فون استعمال کر چکا ہے کیونکہ جب میں نے نیا آئی فون لیا تھا توکئی دنوں تک صیح طریقے سے استعمال نہیں کرسکا تھا لیکن جس روانی سے عثمان آئی فون استعمال کررہا تھا میں کامران سے یہ پوچھے بغیر رہ نہ سکا کہ کیا وہ پہلے بھی آئی فون استعمال کر چُکا ہے ۔ کامران نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ اس نے فرسٹ ٹائم ایسا موبائل اپنے ہاتھ میں پکڑا ہے اس کے بعد میں نے چند اور اسلامی ، تاریخی سوال کیئے جن کے عثمان نے بڑی ہی آسانی اور تیزی سے جواب دے دئیے اتنی چھوٹی عمر میں اتنی معلومات ہونا میرے لیئے متاثرکن تھا ۔ میں عثمان کی ذہانت سے بہت متاثر ہوا میں نے کامران کو مبارکباد دی اور کہا کہ دیکھنا مستقبل میں عثمان تمہار اور پاکستان کا نام روشن کرنے والا ہے ۔ پھر02جنوری 2012ء کوجب میرا قائم پور جا نا ہوا تو میر ی ملاقا ت کامران سے ہوئی ہم کافی خوشگوار موڈ میں گپ شپ لگا رہے تھے میں نے کامران سے اسکے بیٹے عثمان کے بارے میں پوچھا تو کامران کے ہنستے چہرے پر ایک دم سے اداسی چھا گئی اور اسکی آنکھوں سے بے ا ختیار آنسوں ٹپک پڑے کامران کی ایسی حالت دیکھ کر میں بھی پریشان ہو گیا میں نے کامران کا ہا تھ اپنے ہاتھوں میں تھام کر پوچھا سب خیریت تو ہے۔تب کامران نے بتایا کہ سات سے آٹھ مہینے پہلے عثمان کو ہلکا سا بخار ہوا اور ہم گھر کے قریب ہی ایک کلینک پر عثمان کو لے گئے وہاں پر موجود ڈاکڑ نے عثمان کا چیک اپ کیا اور میڈیسن بھی دیں لیکن جب ہم نے میڈیسن عثمان کو دی تو اسکی حالت پہلے سے بھی زیادہ بگڑگئی ہم پریشانی میں بغیر کچھ سوچے پھر اسی ڈاکٹر کے پا س جا پہنچے اور اس سے شکائیت کی کے اس کی تجویز کردہ میڈیسن سے عثمان کی حالت پہلے سے بھی زیادہ خراب ہو گئی ہے تو اس ڈاکٹر نے پھر عثمان کا چیک اپ کیا اور کچھ اور میڈیسن دیں اور کہا کہ ان دوائیوں سے اگر عثمان کی حالت زیادہ خراب ہو تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان میڈیسن سے اس کے اند ر کا بخار باہر نکلے گا۔ہم نے ڈاکٹر کی باتوں پر یقین کیا اور عثمان کو گھر واپس لے آئے لیکن پھر بھی ویسا ہی ہوا میڈیسن دیتے ہی عثمان کی حالت بگڑنے لگی لیکن اس بار ہم پریشان نہ ہو ئے کیونکہ ڈاکٹر نے کہا تھا کہ اگرطبعیت زیادہ خراب ہو جائے تو آپ لوگ سمجھ لیں کہ عثمان کے اند ر کا بخار باہر نکل رہا ہے ہم اس انتظار میں تھے کہ عثمان کا بخار آج اترتا ہے کہ کل اسی کشمکش میں ایک ہفتہ گزر گیا لیکن عثمان کی حالت میں کوئی فرق نہیں آیا تب میں نے فیصلہ کیا کہ عثمان کاشہر کے کسی اچھے ڈاکٹر سے چیک اپ کروایا جائے اور پھر میں عثمان کو شہر لے آیا میں نے ڈاکٹر کو عثمان کی حالت بیان کی اور وہ میڈیسن بھی دیکھائیں جو گاؤں والے ڈاکٹر نے دی تھیں ۔ شہر کا ڈاکٹر عثمان کا چیک اپ کرتے ہی مجھ پر چلانے لگا کہ کس بیوقوف ڈاکٹر نے یہ دوائیاں عثمان کو دی ہیں اسکی یہ حالت صر ف اور صرف انہیں غلط میڈیسن استعمال کرنے کی وجہ سے ہوئی ہے یہ میڈیسن چالیس سے پینتالیس کی عمر کے مریضوں کو دی جاتی ہے اور تم لوگوں نے ایک بچے کو مسلل ایک ہفتے تک اتنی سٹرونگ میڈیسن دے دی ہے اور ان دوائیوں کے ری ایکشن کی وجہ سے اس بچے کا معمولی سا بخار تم لو گوں کی بیوقوفی کی وجہ سے بہت ہی زیادہ خطرناک ہو چکا ہے ۔ ڈاکٹر کی بات سن کر میرے پیروں تلے سے جیسے زمین ہی نکل گئی ہومیں بہت رویا چیخا چلا لیکن اب کیا ہو سکتا تھا اور سب خدا کا لکھا سمجھ کر گھر واپس آگئے تب سے لیکر اب تک عثمان زندہ لاش کی طرح بستر پر پڑا ہے عثمان قومہ میں ہے ٹھیک ہو بھی سکتا ہے اور نہیں بھی اب سب اﷲتعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔کامران کی کہانی سن کر میں بھی اپنے آنسوں نہ روک سکا مجھ سے یہ بات برداشت نہیں ہورہی تھی کہ مسقبل میں پاکستان کے لیئے بننے والا ایک سائنسدان ڈاکٹر یا انجینئر ایک عطائی ڈا کٹر کی وجہ سے ایسی بے بسی کی موت کیسے مر سکتا ہے ۔پھر اگلے ہی روز صبح سویرے میں اس عطائی ڈاکٹر کے کلینک پہنچ گیا جس نے عثمان کا یہ حال کیا تھا لیکن وہاں جا کر پتہ چلا کہ وہ ڈاکٹر تو کیا ڈسپنسر بھی نہیں تھا اور اس نے کلینک پر جو سند رکھی ہوئی تھی وہ بھی کسی اور کے نام کی تھی جس کی وہ منتھلی فیس دیتا تھا ۔جب اس عطائی ڈاکٹر کا بھانڈا پھوٹ گیا تو حیر
ان کن انکشاف ہو ا کہ یہ عطائی ڈاکٹر اصل میں پہلے ٹیلر ماسٹرتھا لیکن چند سال پہلے جب اسے ٹیلرنگ کاکام کرنے میں مز ہ نہ آیا تو اس نے کسی میڈیکل سٹور پر ہیلپر کی نوکری شروع کردی جہاں اس نے تقریباً پانچ سے چھے سال گزارے اور جب اس نے محسوس کیا کہ وہ تما م ادویات کے نام اور استعمال کے بارے میں سب کچھ جان چکا ہے تو یہ جناب اپنے آپ کو ایک ۔ایم ۔بی ۔بی ۔ایس ڈاکٹر سمجھنے لگے اور گاؤں کے معصوم لوگوں کو بیوقوف بناے کے لیے کلینک بنا دیا اور تقریباً پچھلے سات آٹھ سالوں سے ایسے ہی معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیل رہاہے اگر اب بھی عثمان والا واقعہ سامنے نہ آتا تو نہ جانے کب تک یہ نقلی ڈاکٹر لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیلتا رہتا ۔نقلی ڈاکٹر کا بھانڈا پھوٹ جانے پر گاؤں کے لوگوں نے اسکی خوب پٹائی کی کلینک کو بھی توڑ دیا اوراسے پولیس کے حوالے کردیا کیونکہ بات میڈیا میں بھی پھیل چکی تھی اس لیئے پولیس نے بھی اسکی خوب چھترول کی تفتیش کے دوران اس نے اپنا جرم قبول کیا اور یہ بھی بتایا کہ قائم پور میں اور اس کی نواحی بستیوں میں اس جیسے سیکڑوں عطائی ڈاکٹرز موجود ہیں جن میں سے کوئی کبھی ، پنکچر لگانے والا تھا کوئی پان بیڑی بیچنے والا کوئی موٹر سائیکل یا کا ر میکنک تھا ۔ جس طرح کوئی میکینکل یا کوئی بھی ٹیکنکل کام سیکھ کر اس پیشے کو اختیار کیا جاتا ہے ٹھیک اسی طرح عطائی ڈاکٹروں کا بھی یہ موؤ قف ہوتا ہے کہ انہوں نے ڈاکٹری کا کام سیکھ کر یہ پیشہ اختیار کیا ہوا ہے اس نقلی ڈاکٹر نے اس بات کا بھی انکشاف کیا کہ علاقے کے تمام عطائی ڈاکٹرزکو ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر کی پشت پناہی حاصل ہے جو ویزٹ پر آنے والے ان کے کرندوں کو منتھلی تگڑی فیس دیتے ہیں اور اتنا ہی نہیں بلکہ جن کو میڈیکل کلینک کھولنے کے لیئے سرٹیفیکٹ کی ضرورت ہوتی ہے اسکا بندوبست بھی وہ کردیتے ہیں جس کا الگ سے معاوضہ دیا جاتاہے۔معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلنے والے ان قاتل ڈاکٹروں کا جرم میری نظر میں کسی بھی لحاظ ایک قاتل سے کم نہیں ہے اسی لیئے موت کا بیوپار کرنیوالے نقلی ڈاکٹر ز کے لیے بھی ویسی ہی سزا ہونی چاہیے جو سزا کسی قاتل کو دی جاتی ہے۔یہ صورتحال پوری قوم کے لیئے باعث شرم بھی ہے اور تکلیف بھی کیونکہ پاکستان کا کوئی ادارہ ا ایسا نہیں بچا جو کہ کرپشن سے پاک ہو۔ لیکن اس کی ذمہ دار صر ف حکومت یا متعلقہ ادارے نہیں ہیں بلکہ اصل ذمہ دار ہم عوام ہیں کیونکہ یہ تما بُرائیاں ہمارے سامنے ہورہی ہوتی ہیں اور ہم ان دیکھی کر کے گزر جاتے ہیں ۔بے حسی کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی شخص ہمارے سامنے آگ میں جل رہا ہوتو ہم اسکی آگ بجھانے کی بجائے کھڑے ہوکر اسکے جلنے کا تماشہ دیکھتے ہیں لیکن اسی آگ میں جب کوئی اپنا جلتا ہے تو تب ہمیں اس تکلیف کا احساس ہوتا ہے ۔آج بھی پاکستان کے چھوٹے او ر بڑے شہروں میں بے شمار عطائی ڈاکٹرز موجود ہیں جو سرعام انسانی جانوں سے کھیل رہے ہیں اور اگر ان کا خاتمہ نہ کیا گیا تو پھر یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ جانے یا انجانے میں کل کو کوئی ہمارا پنا بھی انکے ظلم کا شکار ہو سکتا ہے۔اس سے پہلے کے کوئی اور محمد عثمان کسی اور عطائی ڈاکٹرکی بھینٹ چڑھ جائے ہمیں ایک ذمہ دار پاکستانی اور ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے اپنے علاقوں سے تما م موت بیچنے والے نقلی ڈاکٹروں کا صفایا کرنا ہوگا۔خدا کے بعد انسانی جان بچانے کا سب سے بڑا ذریعہ یا وسیلا ڈاکٹر کو ہی سمجھا جاتا ہے اس لیے یہ پیشہ انتہائی باعزت اور باوقار ہے لیکن اس نیک پیشے کو بدنام کرنے والے چند نام نہاد ڈاکٹرز ایسے بھی ہیں جو اپنے ذاتی مفاد ات اور پیسے کو انسانی جانوں پر فوقیت دیتے ہیں تو پھر ا یسے میں اصلی اور نقلی ڈاکٹر ز میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا کیونکہ دونوں ہی دولت کے لالچی اور انسانیت کے قاتل ہیں۔

یہ بھی پڑھیے :

Back to top button