رخِ زندگی
اللہ تعا ٰلٰی نے قر آن پا ک میں فر مایا ہیں کہ میں نے جن وا نس کو صر ف اپنی عبا دت کے لیے پیدا کیا ۔ زند گیکے دو رخ بنتے ہیں ۔ ایک اطا عت کا دوسرا نا فر ما نی کا ۔ خو ف خدا دل میں رکھنے والا مطیع و فر ما نبرا دار بن کر زندگی گزار تا ہے۔ اور سر کش انسا ن نا فر ما نی کی زندگی اور خدواللہ کی پر واہ نہیں کر تا ۔ آخر ایک انسان سر کش کیوں ہو تا ہے؟ جب انسان کے اندر دیناوی خوا ہشات کا بحر مو جزن ہو تا ہے۔ تو وہ اپنے خا لق کو بھو ل جا تا ہے اور اسی بحر میں اپنی عقل کے گھوڑے درڑانا شر و ع کر دیتا ہے۔ وہ اپنی پیدا ئش کے مقا صد بھو ل جا تا ہے۔ اور پھر اس کے پا س بے شما ر دلا ئل حجت ہو تے ہیں اپنے تحفظ کے ہے۔ اگر کو ئی زندگی کا رخ مو ڑنے کی کو شش کر لے تو ایسے حضرا ت کیسے ہیں۔ جب مو ت آئے گی دیکھا جا ئے گا زندگی کے چا ر دن ہے کیو ں نہ مز ے اور عیا شی سے گزارے جا ئیں کیا مر جا نے وا لوں کے سا تھ مر جا ئیں زند گی تو چند روز ہے نیکی اور بد ی کے حسا ب کے متعلق فکر کر نے کی ضر ورت نہیں اللہ بڑا غفعو ر و ر حیم ہے ہما ری خطا ئیں معا ف کر دے گا ۔ ہا ں ، وہ بڑا ہی معا ف کر دینے والا اور معا فی کو پسند کر نے وا لی ذات با بر کت ہے مگر ہم پر جو فرائض ہیں ان کو بھی تو پورا کر نا ہو گا ۔
اللہ تعا ٰلیٰ قر آن پا ک میں فر ما تے ہیں۔ اور یہ دنیا کی ز ند گی تو مخض کھیل تما شا ہے۔ البتہ آخر ت کے گھر کی زندگی حقیقی زندگی ہے کا ش یہ جا نتے ہو تے۔ ﴿العنکبو ت ﴾
مگر رخِ نا فر ما نی وا لے حضرا ت کے بقو ل یہ سب کتا بی با تیں ہیں ان کے نظر یا ت کے مطا بق حرا م سے ہی آج کل آسا ئشیں نصیب ہو تیں ہیں حرا م کھا نے سے نہ تو قیا مت ہی ٹو ٹتی ہے اور نہ ہی کو ئی اور عذاب
نا زل ہو تا ہے ا ن کے نز دیک حلا ل سے پیٹ نہیں بھر تا ۔ میر ی نا قص عقل کہتی ہے کہ حلا ل سے پیٹ نہیں بھر تا مگر حرا م سے پیٹ انسان کا بھی بھر جا ئے گا اور کل قیا مت کے دن دوزخ کا پیٹ بھی بھر جا ئے گا ۔
را حت و آسا ئش تو اسلا می طرِز زندگی میں ہی مل سکتیں ہیں۔ بعض کے نظر یا ت رو پیہ پیسہ ما ل و دولت پر کے با رے میں بڑے مثبت ہو تے ہیں ان کے نزدیک زندگی صر ف رو پے پیسے ہی سے ہے جن کے پاس دولت نہیں ان کی کو ئی حثیت نہیں سو چتا ہو ں کہ ایسے خیا لا ت و افکا ر ہما رے ذہنوں میں آئے کیسے سما ئے کسیے کیوں ۔ جبکہ ہمیں قر آن و حد یث سے ہر چیز ہر معا ملے کی را ہنما ئی ہے۔ زند گی کا منفی رخ جس نے بھی اختیا ر کیا اس کی صدا قت کے لیے اس کے پا س بے شما ر کذب بیا نیا ں ہیں جس کی بنا پر وہ اپنے ضمیر کو مطمین کر نے کی کو سعی کر تا رہتا ہے۔ ایک آدمی رشوت لیتا ہے وہ حرا م ہے سب کی نظر میں آ گیا کہ فلاں نے رشوت کھا ئی ہے غلط کیا ہے ایک دوسرا آدمی صر ف ما ہا نہ تنخواہ پر گزار ا کر تا ہے مگر اس کی اپنے افسر انِ با لا سے اچھی بنی ہو ئی ہے وہ اپنی ڈیو ٹی پو ری نہیں کر تا تو اس کی سا ری آمدنی حرا م کے زمر ے میں آگئی ۔ کیو نکہ اس حکو مت تنخواہ کا م کی دیتی ہے اور اپنے افسرا ن کی دلجوِئی کر کے گھر بیٹھے رہتے ہیں ۔ویسے تو انسان کو عقلی حیوان کہا جا تا ہے۔ مگر جب عقل جا تی رہے تو پھر صر ف اور صر ف حیوا ن ہی رہ جا تا ہے۔ انسانیت ختم ہو جا تی ہے۔ اب دو راستے ہیں ۔ زندگی کے دو رخ ہیں ایک منفی اور دوسرا مثبت ۔ ایک انسا نیت کا دوسرا حیوا نیت کا اور اس عقلی حیوان کی عقل کا اندازہ اب لگا نا ہے ۔ کہ یہ کس رخ یا راستے کا انتخا ب کر تا ہے۔ کیا معا شر ے میں ایک مفید شہر ی بن کر مخلو ق خد ا کر لیے نا فع ثا بت ہو تا ہے یا حیوا نیت اپنا کر معا شر ے کا نا سو ر بنتا ہے ۔ وہ انسان جس کی عظمت و عز ت و بلندی اللہ تعا لیٰ نے تما م مخلو قا ت سے اعلیٰ
بنا ئی ۔ کیا وہ اپنے آپ کو اور اپنے خا لق کو پہنچا نتا ہے۔ اس دنیا میں رہتے ہو ئے تما م مشا ہد ے کی با ت ہے کہ کبھی ہم انسا نو ں کی شکل میں حیوان دیکھتے ہیں اور کبھی واقع انسا ن نظر آتے ہیں۔ ظا لم ومظلو م غا لب و مغلوب امیر و غر یب دو نوں ہی اسی دینا کے وسنیک ہیں اور دونوں ہی انسا ن بھی ہیں ایک یہا ں دنیا کی چند دن کی کا میا بی کو اپنی بہت بڑی کا میا بی سمجھ رہا ہے مگر ایسا انسا ن بہت ہی کم ظر ف ہے دوسرا وہ ہے۔ جو اس دنیا کی پر وہ کیے بغیر اپنے خا لق کے احکا ما ت کی پیر وی کر نے میں مصر وف ہے۔ اللہ ہمیں زندگی کے مثبت رخ پر چلنے کی تو فیق عطا فر ما ئے۔
You must be logged in to post a comment.