سیاسی پنچھیوں کی اُڑان کا موسم
موسم کی تبدیلی پرندوں کی نقل مکانی کا باعث بنتی ہے ۔ جبکہ کئی پرندے اس ہجرت کے دوران اپنی نسل کو آگے بڑھاتے ہیں ۔ زمانہ قدیم سے لیکر آج تک انسان بھی کاروبار اور جنگ و جدل کے سلسلہ میں ایک جگہ سے دوسری جگہ ہجرت کرتا ہے ۔ اور اسطرح نہ صرف اُسکی بودوباش ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتی رہی بلکہ نئے نئے وطن اور علاقے آباد ہوتے رہے۔ موسم کی آمد کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی درجۂ حرارت بڑھ چکا ہے ۔ تحریکِ انصاف کے پے در پے حکومت مخالف جلسوں اور اُن میں پایا جانے والا جوش و جذبہ اور جنون سیاسی پنچھیوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی کے جواب میں پی پی پی کے ووٹر ز کی قابلِ لحاظ تعداد نے عمران خان کو اپنی سوچوں کا محور چن لیا ۔ اسکی بڑی وجہ نظریاتی ووٹرز کی سالہاسال سے نواز شریف مخالفت تھی۔مرکزی قیادت اپنی جگہ پر قائم رہی لیکن مقامی قیادت کا بڑا عنصر مسلم لیگ (ن) سے وابسطہ ہو گیا ۔ تاکہ مقامی سطح پر پائے جانے والے مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکے اور سیاست میں نام زندہ رہے۔ مسلم لیگ (قائد اعظم) کی قیادت اور ووٹرز کے لیے اپنا نقطۂ نظر بدلنا بہت آسان تھا اس لیے فوراً مسلم لیگ (ن) سے منسلک ہو گئے ۔
مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں صورتحال یکسر تبدیل ہوتی نظر آرہی ہے ۔ معاشرہ میں بڑھتی ہوئی افراتفری ، اسٹیٹس کو ، چند لو گوں کا اقتدار کے ثمر سے مستفید ہونا اور کارکنوں اور عوام کی دگر گوں حالت نے سیاست کی ہیئت ترکیبی ہی بدل دی ہے ۔ جن کے ناخن پھنسے ہوئے ہیں وہ ہمہ وقت حکومت کی خیر مانگ رہے ہیں جبکہ دیرینہ کارکنان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہے ۔ حکومتی سطح پر تعمیر و ترقی کے بے شمار منصوبوں کا راگ الاپا جا رہا ہے ۔ لیکن ایک عام آدمی کے اطمینانِ قلب کے لیے کوئی قدم نہیں اُٹھایا جا رہا ۔ ان حالات سے مجبور ہو کر حکومتی پارٹی کی درمیانہ درجہ کی قیادت اور ووٹرز مایوسی کا شکا ر ہو چکے ہیں ۔جسکی واضح مثال سردار ذوالفقار کھوسہ جیسی شخصیات ہیں ۔
عمران خان کے خطابات اور بڑے بڑے جلسے اُنکی عوامی مقبو لیت میں اضافہ کا باعث بن رہے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) کی درمیانہ درجہ کی قیادت کو معلوم ہے کہ میاں نواز شریف تیسری بار وزیر اعظم بنے ہیں اور اگلا الیکشن جیت جانے کے باوجود میاں نواز شریف وزیر اعظم نہیں بن سکتے ۔ جبکہ میاں شہباز شریف کا متکبرانہ رویہ پارٹی کے بڑے حصہ کیلئے نا قابلِ قبول ہے ۔ ان تمام حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے بہت سارے سیاسی پنچھی نئی اُڑان بھرنے کے لیے تیاری پکڑ رہے ہیں ۔ اور اُنکے لیے محفوظ پناہ گاہ تحریکِ انصاف ہی ہو سکتی ہے ۔ اس ساری صورتحال کو بھانپتے ہوئے کپتان نے شاہ محمود قریشی کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کر دی ہے تاکہ نئے آنے والوں کا نتارا کیا جا سکے ۔ کپتان کو چاہیئے کہ نرم رویہ اختیار کرتے ہوئے نئے آنے والوں کیلئے کشادہ دلی کا مظاہر ہ کرے۔ انتخابی ٹکٹوں کی تقسیم اور یقین دہانی کو انتخابات تک مؤخر کر دیا جائے
You must be logged in to post a comment.