ملکی حالات اگرچہ اب بھی سنگین ہیں سپر پاور کی حیثیت سے چین کا ابھرنا اور بھارت کا علاقائی طاقت بننا زبردست سفارتکاری اور قومی سلامتی کے اقدامات کا تقاضا کرتا ہے ۔بجلی ۔گیس۔چینی۔آٹا۔پٹرول کے بحران اور آئے دن نئے ٹیکسز اور مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ہے۔لیکن امید کی کرن اب بھی باقی ہے۔۔یہ قوم اپنے زندہ ہونے کا ثبوت گاہے بگاہے دیتی رہتی ہے ۵۰۰۲ کے زلزلے کے متاثرین کی امداد کی بات ہو یا سوات آپریشن کی بحالی کا مسئلہ ۔کینسر ہسپتال کی تعمیر ہو یا کئی دیگر خیراتی یا فلاحی اداروں کی مدد کا کام عوام اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی ہے۔بس اس قوم کو کوئی اگر مقصد مل جائے تو یہ اب بھی دنیا کو حیران کرنے کی طاقت رکھتی ہے۔کرنے کا کام یہ ہے کہ اس قوم کو جزباتیت اور انائیت کے بھنور سے نکال کر ایک غیر جزباتی طرز فکروعمل اپنانے کی تربیت دی جائے۔اسے سمجھایا جائے کہ صرف ایٹم بم سے زندگی آسان نہیں بنائی جا سکتی یہ دور تلوار کا نہیں بلکہ قلم کا ہے۔اور پاکستانی قوم جتنی جلدی اس حقیقت کو سمجھ لے گی پاکستان کے لئے اتنا ہی بہتر ہو گا۔اور اس میں صرف پاکستان ہی کی نہیںبلکہ پورے خطے کی بھلائی ہے۔ہمارے پڑوسی ملک کو بھی یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ نت نئے ہتھیار بنا کر اور اسلحے کے ڈھیر لگا کر وہ ہم پر غلبہ حاصل نہیں کر سکتااور کسی بھی قوم کو دوسری قوم پر غلبہ حاصل کرنے کی خواہش بھی نہیں ہونی چاہئیے ۔پاکستان اور بھارت کے ایٹمی تجربات نے بہت سے لوگوں کی اس خواہش کو ملیا میٹ کر دیا ہے کہ پاک و ہند کے وسائل کو انسانی بہبود کے استعمال میں لایا جائے پاک و ہند میں کروڑوں لوگ ہیں جو نا خواندگی کی زندگی گزار رہے ھیں ۔دنیا کے غریب اور پسماندہ افراد کا ایک تہائی اب بھی پاک و ہند میں موجود ہے جسے دو وقت کا کھانا بھی مشکل سے دستیاب ہے اور کروڑوں لوگ ایسے ھیں جنہیں پینے کا صاف پانی میسر نہیں ہے۔دوسری طرف شرح آبادی میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے اور وسائل اس مقابلے میں بڑھ نہیں رہے جس سے ملکی مسائل میں اور اضافہ ہو گا سیم وتھور جنگلات میں کمی اور زمین کے کٹائو جیسے مسائل پہلے سے ناطقہ سر بگریباں کیے ہوئے ہیں ۔ سرسبز انقلاب کے جنون میں جراثیم کش اور جڑی بوٹیاں تلف کرنے والی ادویات کا بے پناہ استعمال کھانے پینے کی اشیا سمیت ماحول کو بھی تباہ کر رہا ہے آلودگی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے جبکہ حیاتاتی تنوع میں بھی کمی آرہی ہے۔ان حالات میں پاکستان کو درپیش مسائل کے بارے میںتمام قوم کو متحد ہو کر اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا ۔اب بات سوچنے کی حد سے آگے گزر چکی ہے ھمارے ملک کو اب عمل کی ضرورت ہے ۔اٹھیے اور قائد اعظم اور علامہ اقبال کے خوابوں کو حقیقت کا روپ پہنا دیجیئے۔اور حکمرانوں تم بھی ہوش کے ناخن لو۔۔خدارا اس قوم و ملک پر رحم کھائو۔اور بقول شاعر
اب وقت ہے کہ ہنس کے ہر اک غم کو ٹال دو
جتنی کدورتیں ہیں وہ دل سے نکال دو
ملک کی بہشت بچانے کے واسطے۔
آپس کے اختلاف کو دوزخ میں ڈال دو۔
You must be logged in to post a comment.